ہش پپی نامی مشہور شخص جسے ایف بی آئی نے بین الاقوامی فراڈیا قرار دیا
- ہیلن کلفٹن اور پرنسز ابومیرے
- فائل آن فور اینڈ بی بی سی افریقہ
رومن عباس انسٹاگرام پر ہش پپی کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کے 25 لاکھ فالوورز ہیں۔ انھیں ایف بی آئی نے دنیا کا ہائی پروفائل فراڈیا قرار دیا ہے اور وہ منی لانڈرنگ کا الزام ثابت ہونے پر 20 سال سے زیادہ قید کا سامنا کر رہے ہیں۔
بی بی سی نے ان دستیاب عدالتی دستاویزات کا استعمال کر کے سائبر جرائم کے پیچھے موجود اس شخص کو بے نقاب کیا جس کا شکار لاکھوں افراد ہوئے۔
انسٹاگرام انفلوئنز رومن عباس کو گذشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے جرائم کی شروعات نائجیریا میں یاہو بوائے کے طور پر کی اور پھر نام نہاد کروڑ پتی گوچی ماسٹر بن کر دبئی میں شاہانہ زندگی گزارنے لگے۔
لاگوس جو کہ نائجیریا کا معاشی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں ایک پسماندہ ساحلی علاقے اورونشوکی سے اس 37 سالہ شخص نے اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔
بی بی سی سے گفتگو میں ایک مقامی ڈرائیور سیئے نے بتایا کہ انھیں عباس کے حوالے سے یاد ہے کہ وہ نوجوان اپنی ماں کے ساتھ اولوجوجو مارکیٹ میں کام کرتا تھا اور ان کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے۔
سیئے کہتے ہیں کہ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا وہ ایسے تھا جیسے پیسے اڑا رہا ہو۔ وہ بہت فیاض تھا وہ اپنے اردگرد سب لوگوں کے لیے شراب خریدتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مگر ہر کوئی اس کی پراسرار دولت کا ذریعہ جانتا تھا، سائبر کرائم، وہ یاہو تھا۔
یاہو بوائز، رومانوی دھوکے باز ہیں جنھوں نے نائجیریا میں پہلی مفت ای میل میں اپنا نام حاصل کیا تھا۔
لاگوس سٹیٹ یونیورسٹی میں سائبر کرائم کے ماہر ڈاکٹر ادیدیجی اویےنوگا یاہو بوائز کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘وہ لوگوں کی شناخت سے متعلق معلومات چوری کرنے کے خیال کے ساتھ آتے تھے اور پھر اس کے ساتھ کیا چرانا ہے وہ اس کی نشاندہی کرتے اور (دھوکے پر مبنی) ڈیٹنگ کرتے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ یہ یاہو بوائز کا ’جب ایک جھوٹی شناخت کے ساتھ کسی سے تعلق بن جاتا ہے تو یہ رومانوی دھوکے باز اپنے آن لائن محبت کرنے والوں سے پیسہ بٹور لیتے ہیں۔‘
بہت سے یاہو بوائز کی مانند عباس نے بھی اپنے لیے مجرمانہ راستے چن لیے تھے۔ ان میں سے بہت سے ملائیشیا گئے اور عباس نے ان کی تقلید کی، سنہ 2014 کے قریب وہ کوالالمپور گئے اور پھر سنہ 2017 میں دبئی چلے گئے۔
ہیش پپی کا لاگوس میں پرانا گھر
یہ وہ وقت تھا جب انسٹا گرام کی پوسٹس اور جرائم ایک اور درجے پر تھے۔
فروری سنہ 2019 میں انھوں نے ڈیڑھ کروڑ ڈالر منی لانڈرنگ کی کوشش کی۔ یہ رقم شمالی کوریا کے ہیکرز کے گینگ نے والیٹا کے مالٹیز بینک سے چرائے تھے۔
ابیجیل مامو جو کہ مالٹیز چیمبر میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے انٹرپرائزیز کے چیف ایگزیکیٹو ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس ڈاکے نے ہالی ڈے جزیرے میں انتشار پربا کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ چیک آؤٹس پر لوگوں کی جانب سے کی جانے والی شاپنگ کی ٹرالیاں ویسے ہی دھری ہوئی تھیں کیونکہ پے منٹ کا سسٹم ہی بند ہو گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ فون کالز موصول ہوئیں کہ اپنے ممبران کی جانب سے وہ والیٹا کے بینک کو استعمال کر کے غیر ملکی سپلائرز کو رقم منتقل کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سپلائرز کو یہ رقم نہیں ملی تھی۔ ہم ہزاروں یورو کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
بینک کا کہنا ہے کہ اس نے 10 ملین یورو دوبارہ حاصل کر لیے تھے۔
ایف بی آئی نے عباس کا وہ پیغام حاصل کیا جو انھوں نے اپنے ساتھی کو بھیجا۔ اس کے جواب میں ان کے ساتھی نے کہا ’اگلے چند ہفتوں میں تمھیں بتائیں گے جب وہ تیار ہو جائے گا۔ بہت برا ہوا انھوں نے پکڑ لیا، یا یہ ایک اچھا معاوضہ ہوتا۔‘
مئی 2019 میں عباس کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ میکسیکو میں ایک بینک اکاؤنٹ کھولیں۔ اسے 100 ملین پاؤنڈ فٹ بال کی پریمئیر لیگ سے حاصل کرنے تھے اور 200 ملین پاؤنڈ برطانوی فرم سے حاصل کرنے تھے۔ ان میں سے کسی کا نام بھی عدالتی دستاویزات میں درج نہیں۔
یہ دھوکہ دہی بزنس ای میل کومپرومائز بی ای سی کے ذریعے ہونا تھا۔ یہ خوفناک حد تک سادہ سا ہے۔ بی ای سی ایسی ادائیگیوں کا پتہ لگاتا ہے جو جعلی ای میلز کے ذریعے کی جاتی ہیں۔
بظاہر یہ کسی بھی سپلائر کا ہو بہو ای میل پتہ ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی ایک لفظ یا نمبر مختلف ہوتا ہے۔
اس ای میل میں دھوکہ بازوں نے ایک ایسے سپلائر کا تاثر دیا جو کہ اپنی رقم کی ادائیگی کا منتظر ہے۔ جیسے کہ وہ عموماً یہ کہتے ہیں کہ میں نے اکاؤنٹ بدل لیا ہے اس لیے ادائیگی دوسرے اکاؤنٹ میں کیجیے اور اس کی تفصیلات آپ کو دے دی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیے
اب اکاؤنٹس دفتر میں بیٹھا ہوا کلرک اسے سپلائر کی جانب سے کی جانے والی درست درخواست سمجھ کر بے وقوف بن جاتا ہے اور پھر کمپیوٹر ماؤس سے کیے جانے والے ایک واحد کلک سے بہت سی رقم ڈوب جاتی ہے۔
لیکن پریمئر شپ کا فراڈ ناکام ہو گیا جب برطانیہ کے بینک نے میکسیکو کے اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوانے سے انکار کر دیا۔
’بھائی میں برطانیہ سے میکسیکو نہیں بھیج سکتا‘
عباس کے ساتھی نے اسے پیغام بھجوایا کہ ’وہ اب بھی تلاش کر رہے ہیں۔‘ کوئی بھی پریمئیر کلب یہ تصدیق نہیں کرے گا کہ وہ مطلوبہ شکار تھا یا نہیں۔
جان شن لیڈ، برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی میں فراڈ کے کیسز کی سربراہی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جرم کرنے والوں کا نیٹ ورک محتلف علاقوں میں پھیلا ہوا ہو۔
دبئی میں موجود وکیل برنے المظر تقریباً دو افراد کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ وہ ہش پپی کے بی ای سی سکیم کا شکار ہوئے۔ ان افراد میں سے آٹھ کا تعلق برطانیہ سے ہے جو متحدہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔
لیکن وکیل المظار کہتے ہیں کہ ’ہم 100 فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہش پپی ہی اس کے پیچھے ہے لیکن اگر آپ ان اکاؤنٹس کو دیکھیں جن کا پولیس نے پتہ لگایا ہے وہ سب وہی ہیں جو پولیس کو دبئی میں ہش پپی کے گھر میں چھاپہ مارنے کے بعد ملے ہیں۔‘
برطانیہ میں ہش پپی کا شکار ہونے والے ایک شخص اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں پانچ لاکھ برطانوی پاؤنڈز کا نقصان ہوا اور وہ متحدہ عرب امارات چھوڑنے پر مجبور کیے گئے اور وہ خود دبئی میں اپنے خلاف مجرمانہ کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دھوکہ دہی کی وجہ سے انھوں نے جو قرض لیا ہے اس وجہ وہ اس کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان کے وکیل نے وضاحت کی ہے کہ مذکورہ شخص کے کلائنٹ یہ بات جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ لیکن ابھی اس نقصان کو بھرنا ہو گا اور اس وقت وہ شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کیسے واپس متحدہ عرب امارات جا سکتا ہے۔ انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ ہو سکتا ہے وہ وہاں ائیر پورٹ پر اتریں اور امیگریشن والے فوری طور پر انھیں گرفتار کر لیں۔
قطری فراڈ
عباس کا ایک اور بڑا فراڈ جس کے بعد وہ دوبئی میں گرفتار ہوئے وہ شناخت کی دھوکہ دہی کا تھا۔ انھوں نے ایک قطری بزنس مین کو یہ ظاہر کیا کہ وہ نیو یارک کے ایک بینکر ہیں۔ قطری شخص خلیج میں سکول بنانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرض لینا چاہتا تھا۔
دسمبر 2019 اور فروری 2020 کے دوران کینیا، نائجیریا اور امریکہ میں ایک گینگ کے ساتھ شامل ہو کر عباس نے لوگوں سے دس لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ کا فراڈ کیا۔ اس میں سے کچھ رقم دو لاکھ تیس ہزار امریکی ڈالر مالیت کی گھڑی خرید کر بٹوری گئی۔
لیکن ہوا یہ کہ گروہ کے اندر پھوٹ پڑ گئی۔ ایک رکن جو کہ اپنے حصے میں ملنے والی رقم پر ناخوش تھا اس نے یہ دھمکی دی کہ وہ اس فراڈ کی قلعی کھول دے گا۔ عباس اس پر مصر تھا کہ وہ اس کا منھ بند کروائے۔
اس نے اپنے ایک کانٹیکٹ پر رابطہ کیا جو کہ ایک نائجیرین پولیس افسر ابا کیاری تھے۔ اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کی سخت سزا بھگتے۔ اس نے کہا کہ میں اس لڑکے کو جیل بھجوانے کے لیے رقم لگانا چاہتا ہوں کہ وہ لمبے وقت کے لیے جیل میں رہے۔
یہ الزام ہے کہ کیاری نے اس وقت اس مڈل مین کو غلط بنیاد پر گرفتار کیا اور ایک ماہ کے لیے نائجیریا کی جیل میں قید کیا۔ اور اب کیاری بھی امریکہ کو فراڈ اور منی لانڈرنگ کے مقدمے اور شناخت کے ذریعے دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت مطلوب ہے۔
لیکن کیاری نے ان الزامات کی پہلے تردید کی تھی کہ وہ عباس کے ساتھ کسی بھی مجرمانہ عمل میں ملوث ہے اور اس نے بی بی سی کی جانب سے بھی بھجوائی جانے والی درخواست پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
لوگ اب بھی اس کے مداح ہیں
بی ای سی فراڈ پوری دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایف بی آئی کے مطابق سنہ 2020 میں بی ای سی کے تحت ہونے والے فراڈ میں ایک اعشاریہ آٹھ بلین امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق عباس پر الزام ہے کہ انھوں نے لوگوں کا مجموعی طور پر 24 ملین امریکی ڈالرز کا نقصان کیا۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اصل قیمت اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اپریل میں منٹی لانڈرنگ کے کیس میں مجرم قرار دیے جانے کے باوجود ہش پپی کا سوشل میڈیا اب بھی زندہ ہے اور فالورز کی توجہ حاصل کرتا ہے۔
ہم نے انسٹا گرام سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ ان کا اکاؤنٹ اب بھی کیوں کھلا ہوا ہے تو بی بی سی کو جواب ملا کہ انھوں نے اس اکاؤنٹ کی تحقیقات کی تھیں لیکن اس اکاؤنٹ کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد یہی سوال ہم نے سنیپ چیٹ سے کیا جس نے ہش پپی کا اکاؤنٹ بند کر دیا تھا۔
ڈاکٹر اوئےنوگا کہتے ہیں کہ ہش پپی نے لوگوں پر اثرات چھوڑے اور اب بھی اسے رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں بہت سے نوجوان مشکلات میں ہیں۔ جب وہ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہیں جو کبھی ان کی مانند تھا لیکن اب بہت بڑا آدمی بن گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسے والدین کو بھی دیکھا ہے جو اپنے بچوں کو یہ سکھانے کے لیے لے کر جاتے ہیں یاہو بوائز کیسے بنتے ہیں۔ سیئے کہتے ہیں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہش پپی نے جرم کیا تھا لیکن اسے تسلیم کر لیا گیا۔
وہ کہتے ہیں ’کوئی بھی یہ خواہش نہیں رکھتا کہ وہ غریب ہو۔ اس لیے جب آپ کسی ایسے کو دیکھتے ہیں جو کہ امیر ہوتا ہے تو آپ بھی خدا سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے اس جیسا امیر بنا دے۔‘
Comments are closed.