ہالینڈ کی تیرتی ہوئی بستیاں: کیا یہ سمندروں کی بلند ہوتی سطح کا توڑ ہیں؟
- جیک پلفری
- بی بی سی ٹریول
ایمسٹرڈیم کے مضافات میں ایک تیرتی ہوئی بستی واٹربرٹ کی حدود پر جب قدم رکھا تو اس وقت ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
بارش کے خطرے کے باوجود تین منزلہ تیرتے ہوئے گھروں کے رہائشی چھوٹی سی جھیل میں اچھل کود کر رہے تھے۔ ایک ماں بیٹی اپنے کچن کی کھڑکی سے فِشگ راڈ کے ذریعے مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
دو لڑکے قریب ہی سلائیڈ سے جھیل میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ بندرگاہ کے پشتے پر لگے جنگلے کے ساتھ ہر دس میٹر پر ایک بینچ، سائیکل اور باربی کیو سیٹ لگی ہوئی تھی۔
میرے ہمراہ مونٹے فلور کمپنی کے ٹان وان نامین تھے جنھوں نے اس تیرتی ہوئی بستی کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ وہ مجھے یہ بستی دکھانے لائے ہیں۔
ٹان وان نامین مجھے سو گھروں کی اس تیرتی ہوئی بستی کے انوکھے خیال کی تعریفوں کی بجائے یہ بتانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انھیں یہ سب کچھ کرنے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ مسائل جو وان نیامن کے لیے پریشانی کا باعث تھے اب وہی ان کے لیے خوشی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
وان نمین بتاتے ہیں کہ کسی نے لکھا کہ یہ تمام گھر گلی کی سطح سے اونچے ہوں گے۔ ’ہاں بھائی ہوں گے، کیونکہ یہاں گھر اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ اتنا بلند قہقہ لگاتے ہیں کہ وہ ماں بیٹی جو اپنے کچن کی کھڑی سے مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ بھی ایسے پلٹ کر دیکھتی ہیں جیسے وہ آبی خاموشی میں خلل ڈالنے پر برہم ہوں۔
ہالینڈ میں پانی پر تیرتی ہوئی بستیاں بنانے کے تجربے سمجھ میں آتے ہیں۔ یہ ملک اپنے انوکھے ڈیزائنز کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ہالینڈ یورپ میں سطح سمندر سے بلندی کے لحاظ سے سب سے نیچے ہے اور عالمی حدت کی وجہ سے سمندروں کی بلند ہوتی سطح اس ملک کے لوگوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔ تاہم یہ صرف ہالینڈ ہی نہیں ہے جو تیرتی ہوئی بستیوں کا تجربہ کر رہا ہے۔
پیرو اور بولیویا کے سرحد نہر ٹریکاکا میں ارو لوگ سرکنڈے سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں
منک وان ونگرڈین ایمسٹرڈیم سے 55 کلومیٹر جنوب میں روٹر ڈیم کی اس بندرگاہ کی گود میں گائیوں کے ایک ریوڑ کو ایک جدید باڑے میں تبدیل کر رہی ہیں جو بڑے ٹینکروں اور سامان والے جہازوں کے سمندری راستے سے ملتی ہے۔
وان ونگرڈین ایک ہاتھ میں گھاس لے کر کھڑی ہیں جو وہ گائے کو کھانے کے لیے پیش کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں: ’گائیوں کے آنے سے ایک رات پہلے میں پوری رات سو نہیں سکی۔ لیکن یہ سب بہت خوش اسلوبی سے ہو گیا تھا۔‘
وان ونگرڈین اور ان کے پارٹنر کو 2012 میں تیرتے ہوئے ڈیری فارم بنانے کا خیال سمندری طوفان سینڈی کو دیکھنے کے بعد آیا تھا جس نے نیویارک کے ذرائع مواصلات کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ اس سے نیویارک کی سپر مارکیٹوں کے شیلف کئی روز تک خالی ہو گئے تھے۔ نیویارک سے واپس نیدرلینڈز آنے کے بعد ونگرڈین نے ایک ایسا ڈیری فارم بنانے کا سوچا جو ماحول سے مطابقت رکھتا ہو۔
ان کا ڈیری فارم جو 2019 میں شروع ہوا اب اس میں 40 گائیں ہیں جو بندرگاہ کی قریبی چراہ گاہ پر گھومتی رہتی ہیں۔ اس فارم میں پیدا ہونے والا دودھ، پنیر اور دہی قریب ہی بسنے والے گاہکوں تک سائیکل یا الیکٹرک وین کے ذریعے پہنچ جاتا ہے۔
شہر کا کچرا جن میں ریستورانوں میں بچا ہوا کھانا، فین فورڈ کلب کی فٹبال سٹیڈیم کی پچ کی اضافی گھاس شامل ہوتی ہے، وہ اس ڈیری فارم کے جانوروں کی خوراک کا حصہ بن جاتا ہے۔
وان ونگرڈین کہتی ہیں کہ ہمارا جس جگہ پر ہیں، یہ ہمیں صحت مند خود اپنے شہر میں بیچنے کا موقع مہیا کرتی ہے۔ وان ونگرڈین تیرتے ہوئے پولٹری فارم اور سبزی فارم کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’میرے خیال میں تیرتے ہوئے فارمز کا مسقبل روشن ہے۔‘
ہالینڈ میں پانی پر تیرتی بستیاں اور فارمز کی کامیابی سے یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا مستقبل میں پانی پر شہر بھی آباد ہو پائیں گے۔
ایمسٹرڈیم کا مضافاتی علاقہ تیرتے ہوئے گھروں کا مرکز ہے جہاں مزید ایسے تیرتے ہوئے گھر تیار کیے جا رہے ہیں
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ امریکی کمپنی اوشنکس تیرتی ہوئی انسانی بستیاں بنانے میں سب سے آگے ہے اور وہ اس وقت 75 ہیکٹر پر محیط ایک تیرتی ہوئی بستی بنانے میں مصروف ہے جس میں دس ہزار لوگ رہ سکیں گے۔
اوشنکس کے چیف ایگزیکٹو افسر مارک کولنز چن کہتے ہیں کہ جب سمندروں کی بلند ہوتی سطح کی بات آتی ہے تو ساحلی شہروں کے پالیسی سازوں کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں۔ یا تو اونچی دیوار تعمیر کریں جو کبھی اتنی اونچی ہو ہی نہیں جتنی ضرورت ہے یا پھر جدید انجنیئرنگ کا سہارا لے کر تیرتی ہوئی بستیاں تیار کریں۔‘
’ہم ایسا انفراسٹرکچر بنا رہے ہیں جو شدید ترین موسمی حالات کا مقابلہ کر سکیں اور دیرپا بھی ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان آبادیوں میں قدرتی ایندھن کا استعمال نہ کیا جائے۔ یہ سب دوبارہ قابل استعمال انرجی ہے اور ہم پروٹین کی اپنی ضروریات کا سو فیصد انھیں تختوں پر پی پیدا کر رہے ہیں۔‘
اوشننکس کمپنی جسے تیرتا ہوا شہر کہہ کر مارکیٹنگ کر رہی ہے وہ در حقیقت شہر سے جڑے ہوئے تیرتے ہوئے علاقے ہیں، جو گنجان آباد ساحلی شہروں کی سمندروں میں تجاوزات ہیں۔ ایسے شہروں میں جکارتہ، شنگھائی جیسے شہر ہیں جو پہلے ہی سمندر کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
یہ نئے شہر دو ہیکٹر وسیع تکونے پیلٹ فارمز ہیں جہاں 300 لوگ رہ سکیں گے اور ان کے پاس تفریح اور فارمنگ کے لیے خالی جگہ بھی ہو گی۔ ان تیرتی ہوئی آبادیوں کو آپس میں باندھ کر وسیع شہر بھی بنایا جا سکتا ہے۔
یہ سب کچھ سننے میں بہت اچھا ہے لیکن کیا یہ تیرتے ہوئے شہر حقیقت کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔
کولن چن کہتے ہیں کہ ’یقیناً یہ ہو رہا ہے، ہم چند برسوں میں ایسی بستیوں کے نمونے دیکھیں گے۔ مجھے یہت اعتماد ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں سے دنیا کا پہلا تیرتا ہوا ڈیری فارم تیار کیا گیا ہے
تیرتے ہوئے شہر شاید سائنسی فکشن لگیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان صدیوں سے تیرتی ہوئی بستیوں میں رہ رہے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈیزائن لیکچرر جولیا واٹسن کہتی ہیں کہ ‘ہم نے 64 ایسی تیرتی ہوئی آبادیوں کی فہرست بنائی ہے۔ ان سب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام مقامی سطح پر بنائے گئے ہیں جو بہت دیرپا ہیں جبکہ ہمارے شہر ایسے نہیں ہیں۔‘
جولیا واٹسن ’لو ٹیک ڈیزائن بائی ریڈیکل انڈیجزم‘ کتاب کی مصنفہ بھی ہیں جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہم مقامی ثقافتوں سے کیا حاصل کر سکتے ہیں۔
تیرتی ہوئی آبادیوں کی مثالیں آج بھی موجود ہیں جن میں سرکنڈے کے تیرتے ہوئے جزائر شامل ہیں جن پر ارو قبیلے کے لوگ رہتے ہیں۔
بولیویا اور پیرو کی سرحد پر تیرتے ہوئے باغ ’ٹی ٹی کاکا‘ جیسی آبادیاں وہاں عام ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں کسان تیرنے والی گھاس سے بڑے بڑے پیلٹ فارمز بنا کر ان پر فصلیں اگاتے ہیں جو مون سون کے موسم میں پانی کی سطح کے ساتھ اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔
کسی حد تک بڑے شہروں کے قیام کی وجہ سے ایسی چھوٹی چھوٹی آبی آبادیاں غائب ہوئی ہیں جنھیں اب ہمارا مستقبل کہا جا رہا ہے۔
واٹسن کہتی ہیں کہ یورپ اور چین میں بڑے بڑے شہروں کی تعمیرات کی وجہ سے جھیلیں اور دلدلی علاقوں کو بھر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایسی ٹیکنالوجی غائب ہو گئی ہے۔
واپس ایمسٹرڈیم میں واٹربرٹ کے پشتے پر کھڑے ہوئے وان نامین نے ہماری توجہ ایک اور مسئلے کی طرف دلائی جو انھیں اس تیرتی ہوئی بستی بسانے کے دوران پیش آیا تھا۔ ایک رہائشی پیڈل بوٹ میں دو گھروں کے درمیان سے گزر رہا ہے۔
وان نامین بتاتے ہیں کہ یہ فلوٹنگ ڈبلز نے ہماری سردردی کا خوب سامان پیدا کیا خاص طور ایس صورت میں جب اس گھر ایک حصے میں کوئی رہائش پذیر ہو جبکہ دوسرا حصہ خالی پو۔
وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر ایک گھر میں رکھے سازو سامان کا وزن ٹنوں میں ہوتا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بہت سارے ڈبلز بہت غیر متوازن تھے۔ انھوں نے اپنے بازور سے 45 ڈگری کا زوایہ بناتے ہوئ اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔
بنگلہ دیش کے وہ تیرے ہوئے باغ جو پانی کے اتار چڑھاؤ سے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں
جب ہم واپس آ رہے تھے تو میں نے وان نامین سے یہ پوچھا کہ کیا ہمیں مستقبل میں مزید ایسے تیرتے ہوئے شہر نظر آئیں گے اور کیا یہ ہی سمندر کی بلند ہوتی ہوئی سطح کا توڑ ہے۔
ان کے بقول یہ ممکن ہے اور دنیا میں بہت سے ساحلی شہر ہیں جہاں ایسے منصوبے بن سکتے ہیں۔’ یقیناً ہمیں سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے جن مسائل کا سامنا ہے یہ اس کا حل ہو سکتا ہے۔`
پھر وان نامین اپنی گفتگو میں ایک وقفے کے بعد گویا ہوتے ہیں: ’اس مسئلے کا یہ حل نہیں ہے، مسئلے کا حل سمندروں کی سطح کو بلند ہونے سے روکنا ہے۔”`
بدقسمتی سے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے وان نامین بھی حل نہیں کر سکتے۔
Comments are closed.