my uber hookup hookup Middle Island hookup Stafford CT american hookup lisa wade pdf hookup Colmar best site to hookup with older woman

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ہاتھ میں لگے چِپ امپلانٹس کی مدد سے بل ادا کریں

ہاتھ میں لگے مائکروچِپ امپلانٹس کی مدد سے بل ادا کریں

  • کیتھرین لیتھم
  • بی بی سی بزنس رپورٹر

A woman using a contactless payment microchip implant

،تصویر کا ذریعہPiotr Dejneka

،تصویر کا کیپشن

ایک خاتون کیفے میں اپنے کھانے کا بل ہاتھ میں لگی چِپ کی مدد سے ادا کر رہی ہیں

پیٹرِک پامن جب بھی کسی دکان یا ریستوران میں کسی چیز کی قیمت ادا کرتے ہیں تو آس پاس موجود لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں ادائیگی کے لیے اپنا بینک کارڈ یا سمارٹ فون استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وہ بس اپنا ہاتھ کانٹیکٹلیس (چھوئے بغیر) کارڈ ریڈر کے پاس لے جاتے ہیں اور پیمنٹ ہو جاتی ہے۔

سینتیس برس کے پامن جو نیدرلینڈ میں سکیورٹی گارڈ ہیں کہتے ہیں کہ ’کیشیئر کی حیرانی قابلِ دید ہوتی ہے۔‘

وہ صرف ہاتھ دکھا کر ادائیگی اس لیے کر سکتے ہیں کہ 2019 میں انھوں نے اپنے ہاتھ کی جِلد کے نیچے ایک کانٹیکٹلیس پیمنٹ مائکروچِپ لگوا لی تھی۔

پامن کا کہنا ہے کہ ’چپ لگوانے میں بس اتنی ہی تکلیف ہوئی جتنا کہ اگر کوئی چٹکی بھر لے۔‘

Patrick Paumen's payment chip implant lights up

،تصویر کا ذریعہPatrick Paumen

،تصویر کا کیپشن

پیٹرِک پامن کے بائیں ہاتھ کی جلد کے نیچے نصب چپ پیمنٹ مشین کے قریب لائے جانے پر روشن ہو جاتی ہے

کسی انسان میں دنیا کی سب سے پہلی مائکروچپ 1998 میں لگائی گئی تھی، تاہم گزشتہ دہائی کے دوران یہ ٹیکنالوجی تجارتی بنیادوں پر بھی دستیاب ہو چکی ہے۔

اور جہاں تک امپلانٹ (نصب) کیے جانے کے قابل پیمنٹ چِپس کی بات ہے تو برطانوی پولِش فرم والٹمور کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس وہ پہلی کمپنی بن گئی تھی جس نے ان کی فروخت شروع کی تھی۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو وُجٹیک پاپروٹا کہتے ہیں کہ ’اس کی مدد سے آپ ریو کے ساحل پر ڈرنک، نیویارک میں کافی، پیرس میں ہیئرکٹ اور دیگر اشیا کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ یہ ہر اس جگہ پر قابلِ استعمال ہے جہاں پر کانٹیکٹلیس پیمنٹ کا انتظام موجود ہے۔‘

والٹمور کی چِپ کا وزن ایک گرام سے کم اور جسامت چاول کے دانے سے کچھ بڑی ہے، اور یہ ایک چھوٹی سی مائکروچپ اور بایوپولیمر کے اندر بند ایک اینٹینا پر مشتمل ہے۔ بایوپولیمر پلاسٹک کی مانند قدرتی طور پر پایا جانے والا مادہ ہے۔

پیپروٹا کا کہنا ہے کہ ’یہ بالکل محفوظ ہے اور اسے سرکاری منظوری حاصل ہے۔ یہ نصب کیے جانے کے فوراً بعد کام شروع کر دیتی ہے اور اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ اسے بیٹری کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘ کمپنی کا کہنا ہے کہ اب تک وہ 500 سے زیادہ چِپس فروخت کر چکی ہے۔

اس چپ کے اندر وہ ہی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو سمارٹ فون کے کانٹیکٹلیس پیمنٹ سسٹم میں استعمال ہوتی ہے جسے نیئرفیلڈ کمیونیکیشن یا ’این ایف سی‘ کہتے ہیں۔ ایسی ہی دوسری چِپوں میں کانٹیکٹلیس ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ (بینکوں کے کارڈ) کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جو ریڈیو فریکوینسی آئڈنٹیفیکیشن یا ’آر ایف آئی ڈی‘ کہلاتی ہے۔

An x-ray showing a Walletmor implant

،تصویر کا ذریعہWalletmor

،تصویر کا کیپشن

انگوٹھے اور پہلای انگلی کے درمیان نصب والٹمور اِمپلانٹ جسے ہاتھ کو سُن کر نے کے بعد لگایا گیا

ہم میں سے بہت سوں کے لیے ایسی چپ لگوانے کا خیال ہی ہولناک ہے، لیکن 2021 میں برطانیہ اور پورپی یونین میں 4000 افراد کے ایک سروے کے مطابق 51 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس لگانے سے متعلق سوچ سکتے ہیں۔

تاہم فیصد تناسب کا ذکر کیے بغیر اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں شرکا کے بڑے خدشات ’جاسوسی اور سکیورٹی‘ سے متعلق تھے۔

پامن کہتے ہیں انھیں اس کی زیادہ پروا نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چپ امپلانٹ اُسی ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جسے ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ دروازہ کھولنے کے لیے کی فابز(ٹکیہ)، سفری کارڈ اور کانٹیکٹلیس پیمنٹ کے حامل بینک کارڈ وغیرہ۔

’اس کے پڑھے جانے کے فاصلے کا انحصار اس میں موجود اینٹینا پر ہے۔ چپ اگر آر ایف آئی ڈی یا این ایف سی ریڈر کی ایلکٹرومیگنیٹیک فیلڈ کے اندر آئے تب ہی کارآمد ہوگی۔ اسے پڑھا جانا اسی صورت ممکن ہوگا جب ریڈر اور ٹرانسپورڈر کے درمیان مقناطیسی شناخت پیدا ہوگی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس کی بالکل فکر نہیں کہ اگر کوئی یہ جان لے کہ وہ کہاں کہاں گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آر ایف آئی ڈی چپ پالتو جانوروں کے گم ہونے کی صورت میں ان کی شناخت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ مگر اس کی مدد سے کھوئے ہوئے جانور کو ڈھونڈ نکالنا ممکن ہے، پہلے اسے تلاش کیا جائے گا اور ملنے کے بعد اس کے جسم کو سکین کر کے اس میں نصب آر ایف آئی ڈی چپ کا پتا لگایا جائے گا اور اسے کے بعد ہی اسے پڑھ کر مطلوبہ معلومات حاصل کی جا سکیں گی۔‘

البتہ ایسی چِپوں کا مسئلہ یہ ہے (اور جو خدشے کا باعث بھی ہے) کہ مستقبل میں انھیں زیادہ ترقی دے کر ان پر کسی شخص کی پرائویٹ معلومات محفوظ کی جا سکیں گے۔ اور کیا تب یہ معلومات محفوظ رکھی جا سکیں گی اور کسی کی ٹریکنگ (برقیاتی تعاقب) کو روکا جا سکے گا۔

’بیانڈ گُڈ: ہاؤ ٹیکنالوجی از لیڈنگ اے بزنس ڈرِیون ریوولوشن‘ نامی کتاب کی مصنف تھیوڈورا لاؤ، فِنٹیک یعنی فائنانشل ٹیکنالوجی کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جسم کے اندر نصب شدہ پیمنٹ چپ صرف ’اشیا کے انٹرنیٹ کی توسیع ہے۔‘ اس سے ان کی مراد ہے کہ یہ رابطے اور معلومات کے تبادلے کا ایک اور ذریعہ ہے۔

Theodora Lau

،تصویر کا ذریعہTheodora Lau

،تصویر کا کیپشن

تھیوڈورا لاؤ کہتی ہیں کہ مستقبل میں ہمیں اس طرح کے اِمپلانٹس لگوانے کے لیے حد متعین کرنی ہوگی۔

اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اسے اپنانے کو تیار ہیں کیونکہ اس طرح سے چیزوں کے لیے ادائیگی تیز اور آسان ہو جائے گی، مگر لازم ہے کہ فوائد اور خطرات کا موازنہ کیا جائے۔ خاص طور سے اس وقت جب نصب شدہ چپوں پر زیادہ ذاتی معلومات موجود ہوں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سہولت کی خاطر کتنی قیمت چکانے کو تیار ہیں؟ جب معاملہ پرائیویسی اور سکیورٹی کا ہو تو ہمیں کہاں پر حد مقرر کرنی چاہیے؟ اس سارے نظام اور جو اس کا حصہ ہیں ان کی حفاظت کون کرے گا؟‘

ریڈنگ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر نادا کاکابادسے بھی مستقبل کی جسم میں نصب ترقیافتہ چپوں کے بارے میں محتاط ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس ٹیکنالوجی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے جسے ممکنہ طور پر غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جن کے نزدیک شخصی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی، دوسروں کو کنٹرول کرنے اور دبانے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔

’معلومات یا ڈیٹا کی ملکیت کس کے پاس ہوگی؟ ڈیٹا تک رسائی کسے حاصل ہوگی؟ اور کیا یہ اخلاقی لحاظ سے ٹھیک ہے کہ جانوروں کی طرح انسانوں کے اندر بھی چپ لگائی جائے؟‘

وہ خبردار کرتی ہیں کہ اس کا نتیجہ ’چند افراد کے مفاد کے لیے بہت سے لوگوں سے اختیار چھیننے کی صورت میں نکلے گا۔‘

یونیورسٹی آف وِنچسٹر سے وابستہ سٹیفن نارتھم ان خدشات کو بلا جواز قرار دیتے ہیں۔ تدریس کے ساتھ وہ برطانوی فرم بایوٹیک کے بانی بھی ہیں جو 2017 سے امپلانٹڈ کانٹیکٹلیس چپس بنا رہی ہے۔

اس کی چِپیں معذور افراد میں لگائی جاتی ہیں جن کی مدد سے ایسے لوگ خود ہی دروازہ کھول سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں روزانہ سوالات موصول ہوتے ہیں اور اب تک ہم نے برطانیہ میں 500 سے زیادہ چپیں لگائی ہیں، تاہم کووڈ کی وجہ سے کچھ کمی ضرور آئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جانوروں میں یہ ٹیکنالوجی کئی سالوں سے زیر استعمال ہے۔ یہ بہت چھوٹی اور بے ضرر ہیں۔ ان میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘

Patrick Paumen

،تصویر کا ذریعہPatrick Paumen

،تصویر کا کیپشن

پیٹرِک پامن نے اپنی انگلیوں کے اندر مقناطیس لگوا رکھے ہیں

ادھر نیدرلینڈ کے پامن خود کو بایوہیکر کہتے ہیں، ایک ایساشخص جو اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو اپنے جسم میں سموتا چلا جاتا ہے۔ ان کے جسم میں 32 امپلانٹ نصب ہیں، جن میں دروازے کھولنے والی چپ اور مقناطیس شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹیکنالوجی میں نت نئی چیزیں آ رہی ہیں، اس لیے میں بھی انھیں جمع کر رہا ہوں۔ میرے امپلانٹ میرے جسم کو قوت فراہم کرتے ہیں۔ میں خود کو ان سے محروم نہیں رکھنا چاہتا۔

’ایسے لوگ تو ہمیشہ رہیں گے جو اپنے بدن میں تبدیلی لانا نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے اور انھیں ہم بایوہیکر کا احترام کرناچاہیے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.