گھروں میں سستی بجلی فراہم کرنے والے سولر پینلز کو ری سائیکل کرنا کیوں ضروری ہے؟
- مصنف, ڈینیئل گورڈن
- عہدہ, دی کلائمٹ کویسٹن پوڈکاسٹ، بی بی سی ساؤنڈز
ماحول دوست، کاربن اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کی بنا پر سولر پینل کی تشہیر کی جاتی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی زندگی صرف 25 سال ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں نصب کیے گئے اربوں پینلز کو ایک نہ ایک دن تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
آسٹریلیا میں نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے ڈاکٹر ران ڈینگ سولر پینل ری سائیکلنگ کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں شمسی توانائی کے استعمال ہونے والے سولر پینلز میں ایک ٹیرا واٹ سے زیادہ شمسی صلاحیت ہے۔ عام سولر پینلز کی صلاحیت قریب 400 واٹ ہوتی ہے۔ اگر آپ گھر کی چھتوں پر نصب شدہ پینلز اور سولر فارمز کو جمع کریں گے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں ڈھائی ارب سولر پینل ہیں۔‘
برطانوی حکومت کے مطابق ملک میں لاکھوں سولر پینلز ہیں مگر انھیں سکریپ کرنے اور ری سائیکل کرنے کا مخصوص انفراسٹرکچر کہیں موجود نہیں۔
توانائی کے شعبے کے ماہرین مطالبہ کرتے ہیں کہ اس عالمی ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے فوری طور پر حکومتی اقدامات درکار ہیں۔
انٹرنیشنل رینیو ایبل ایجنسی کے نائب سربراہ اوٹ کولیئر نے کہا ہے کہ ’اگر ہم نے ابھی ری سائیکلنگ چینز نہ بنائیں تو 2050 تک ایک کباڑ کا پہاڑ ہوگا۔‘
وہ پوچھتی ہیں کہ ’ہم زیادہ سے زیادہ سولر پینل بنا رہے ہیں جو کہ عمدہ ہے لیکن اس کے ویسٹ سے کون نمٹے گا؟‘
امکان ہے کہ فرانس میں اس حوالے سے جون میں کوئی اقدام کیا جائے گا جب وہاں دنیا کا پہلا سولر پینل ری سائیکلنگ پلانٹ لگ جائے گا۔
آر او ایس آئی ایک سولر ری سائیکلنگ کمپنی ہے جو اس پلانٹ کی مالک ہوگی۔ اسے امید ہے کہ یہ سولر یونٹس کو 99 فیصد دوبارہ استعمال کے قابل بنائے گی۔
سامنے کے شیشے اور ایلومینیم کے فریم کے علاوہ یہ نئی فیکٹری تقریباً پورے پینل کو ری سائیکل کرے گی اور اس میں سے چاندی اور تانبا نکالے گی۔ یہ سب سے مشکل سے نکلنے والی چیزوں میں سے ہیں۔
اس خام مال کو پھر ری سائیکل کر کے اس سے نئے اور مزید طاقتور سولر پینل بنائے جا سکیں گے۔
سولر پینلز کی ری سائیکلنگ کے روایتی طریقے زیادہ تر ایلومینیم اور شیشے کو بحال کرتے ہیں۔ لیکن آر او ایس آئی کا کہنا ہے کہ شیشہ، خاص طور پر، نسبتاً کم معیار کا ہے۔
ان طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے برآمد ہونے والے شیشے کو ٹائلیں بنانے کے لیے یا سینڈ بلاسٹنگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے اسفالٹ بنانے کے لیے دیگر مواد کے ساتھ بھی ملایا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے ایسے کاموں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا جہاں اعلیٰ درجے کے شیشے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے نئے شیشے کی تیاری سولر پینل۔
آر او ایس آئی کا نیا پلانٹ شمسی پینل کی مانگ میں تیزی کے دوران کھلے گا۔
2021 میں دنیا کی شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں ہر ماہ اکثر گھروں میں لگنے والے سولر پینلز کی تعداد 13 ہزار 13,000 فوٹو وولٹک ہے۔
بہت سے کیسز میں شمسی یونٹ اپنی متوقع عمر کے اختتام کو پہنچنے سے پہلے ہی اتنے کارآمد نہیں رہتے۔ نئے، زیادہ موثر ڈیزائن باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں۔ یعنی صرف 10 یا 15 سال پرانے سولر پینلز کو اپ ڈیٹ شدہ یونٹ کے ساتھ تبدیل کرنا سستا ہو سکتا ہے۔
کولیئر کے مطابق اگر موجودہ ترقی کے رجحانات برقرار رہے تو سکریپ سولر پینلز کا حجم بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ ’2030 تک ہمارے پاس چار ملین ٹن (سکریپ) ہوں گے جس کا انتظام کرنا ممکن ہوگا لیکن 2050 تک یہ عالمی سطح پر 200 ملین ٹن سے زیادہ ہوسکتا ہے۔‘
دنیا میں ہر سال 400 ملین ٹن پلاسٹک پیدا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سولر پینل کو ری سائیکل کرنے کا چیلنج
سولر پینلز کی ری سائیکلنگ کے لیے بہت کم سہولیات موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں اس پر عمل کرنے اور دوبارہ استعمال کرنے کے لیے زیادہ ویسٹ جمع نہیں ہوسکا ہے۔
گھریلو سولر پینلز کی پہلی نسل اب اپنی قابل استعمال زندگی کے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ ان یونٹس کے ساتھ، جو اب ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ رہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
کولیئر کے مطابق ’اس بارے میں سوچنے کا وقت آگیا ہے۔‘
سولر پینل کی ری سائیکلنگ کے ماہر نکولس ڈیفرین کہتے ہیں کہ جب فوٹو وولٹک فضلے کی پروسیسنگ کی بات آتی ہے تو فرانس پہلے ہی یورپی ممالک میں ایک رہنما ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑے سولر پینل ری سائیکل کرنے میں انھیں تین ماہ لگے۔
ان کی کمپنی سورین جمع کردہ چیزوں کو ری سائیکل کرنے کے مختلف طریقوں کے ساتھ تجربات کر رہی ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے ’ہم سب کچھ دیوار پر پھینک رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ چپکتا ہے۔‘
گرینوبل میں آر او ایس آئی کے جدید پلانٹ میں سولر پینلز کو بڑی محنت کے ساتھ الگ کیا جاتا ہے تاکہ اندر موجود قیمتی مواد نکالا جائے جیسے تانبا، سیلیکون اور چاندی۔
ہر سولر پینل میں اس قیمتی مواد کے صرف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں اور یہ ٹکڑے دوسرے اجزا کے ساتھ اتنے جڑے ہوتے ہیں کہ انھیں الگ کرنا معاشی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔
ڈیفرین کہتے ہیں کہ چونکہ وہ بہت قیمتی ہیں اس لیے ان قیمتی مواد کو موثر طریقے سے نکالنا گیم چینجر ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سولر پینلز کے وزن کے تین فیصد میں 60 فیصد سے زیادہ قیمتی مواد ہے۔‘
اس ٹیم کو امید ہے کہ مستقبل میں نئے سولر پینلز بنانے کے لیے درکار مواد کا تقریباً تین چوتھائی حصہ، جس میں چاندی بھی شامل ہے، کو ریٹائرڈ پی وی یونٹس سے نکالا جا سکتا ہے اور نئے پینلز کی پیداوار کو تیز کرنے میں مدد کے لیے ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔
ڈیفرین کہتے ہیں کہ فی الحال لاکھوں سولر پینلز بنانے کے لیے اتنی چاندی دستیاب نہیں جو اسے فاسل فیول کا متبادل بنا سکے۔ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے پاس پیداواری رکاوٹ کہاں ہے، یہ چاندی ہے۔‘
دریں اثنا برطانوی سائنسدان آر او ایس آئی جیسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پچھلے سال لیسٹر یونیورسٹی کے محققین نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے سلین کی ایک شکل کا استعمال کرتے ہوئے پی وی یونٹس سے چاندی نکالنے کے طریقے پر کام کیا ہے۔
لیکن اب تک آر او ایس آئی اپنے شعبے میں واحد کمپنی ہے جس نے اپنے کام کو صنعتی سطح تک بڑھایا ہے۔
اس کے علاوہ یہ ٹیکنالوجی مہنگی ہے. یورپ میں شمسی پینلز کے درآمد کنندگان یا پروڈیوسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناقابل استعمال اشیا کو ٹھکانے لگائیں۔ بہت سے لوگ کچرے کو کچلنے یا ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے حق میں ہیں جو کہ سستا ہے۔
ڈیفرین تسلیم کرتے ہیں کہ سولر پینلز کی ری سائیکلنگ ابھی ابتدائی دور میں ہے۔ سورین اور اس کے شراکت داروں نے پچھلے سال صرف 4,000 ٹن فرانسیسی سولر پینلز کو ری سائیکل کیا۔
لیکن بہت کچھ کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ اسے اپنا مشن بنا رہے ہیں۔
’فرانس میں پچھلے سال فروخت ہونے والے تمام نئے سولر پینلز کا وزن 232,000 ٹن تھا۔ لہذا جب تک وہ 20 برسوں میں ختم ہو جائیں گے، مجھے ہر سال اتنا ہی جمع کرنے ہوں گے۔
جب ایسا ہوتا ہے تو میرا ذاتی مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ فرانس ٹیکنالوجی میں دنیا کو رہنمائی دے۔‘
Comments are closed.