کیڑے مکوڑے ہماری روزمرہ خوراک کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟
- کریک ڈگن
- بی بی سی نیوز
جب آپ لوگوں کے کیڑے کھانے کے بارے میں سنتے ہیں، تو امکان ہے کہ آپ مشہور برطانوی ریئلٹی شو آئی ایم سیلیبریٹی پر بش ٹکر ٹرائل کے بارے میں سوچتے ہوں گے، جو شروع ہونے کو ہے۔
لیکن کیڑوں سے بنائے گئے کھانے کے اجزا آپ کے قریبی مینو کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ایبرسٹ وِتھ یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کا مرکز یہی موضوع ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف بیالوجیکل، انوائرنمنٹل اینڈ رورل سائنسز (آئی بی ای آر ایس) کے سائنسدان کیڑوں کو جانوروں اور انسانوں کے لیے خوراک کے ممکنہ قابل قدر ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یہ کام ’ویلیو سیکٹ‘ کا حصہ ہے، جو قیمتی کیڑوں سے متعلق ایک عالمی منصوبہ ہے، جس کا مقصد کیڑوں پر مبنی مصنوعات کی پائیدار پیداوار اور اس کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔
میکسیکو، چین اور گھانا جیسے ممالک میں کیڑے لوگوں کی روزمرہ کی خوراک کا حصہ ہیں۔
کیڑے بہت سے دوسرے کھانوں کے مقابلے میں ماحول دوست پروٹین کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی طلب میں مدد کر سکتے ہیں۔
بیس ہزار زندہ کھانے کے کیڑوں کی ٹرے پر بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ٹفنی لاؤ، جو آئی بی ای آر ایس میں ایک محقق ہیں، نے کہا کہ کیڑے کے اجزا کئی طرح کے کھانوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ان کیڑوں کو پروٹین شیک اور پروٹین سمودیز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کیڑے برگر، فلافیلز، مفنز کچھ بھی ہو سکتے ہیں جس کے بارے میں آپ حقیقت میں سوچ سکتے ہیں۔‘
’میں انھیں کھاؤں گا، مگر شاید ایسے نہیں جس طرح یہ اب نظر آ رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتے ہیں کہ ’بہرحال ان کیڑوں کو کھانا بنانے سے پہلے خشک کر کے پاؤڈر بنا دیا جائے گا تاکہ آپ اسے اپنے برگر سے باہر لٹکتے کیڑے کی طرح نہیں دیکھیں بلکہ یہ ایک طرح کے پیٹی (کباب) کی شکل میں تیار کیے جائیں گے۔‘
ایبرسٹ وِتھ یونیورسٹی کے سائنسدان پروسیسڈ کیڑوں کی غذائیت کی اہمیت پر تحقیق کر رہے ہیں، جس کے بارے میں پروفیسر ایلیسن کنگسٹن سمتھ نے کہا کہ یہ پائیدار پروٹین کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ کیڑے پروٹین اور ’پولی ان سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز‘ سے بھرے ہیں جو ہمارے لیے واقعی اچھا ہے۔
’ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہم کیڑوں کو کس طرح کھا سکتے ہیں تاکہ ان سے خوراک کے لیے ضروری غذائیت فراہم کی جا سکے جس کی ہمیں خوراک اور کھانے میں کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
’سب سے زیادہ عام بات ان اجزا کا ملا کر انھیں انرجی کا ذریعہ بنانا ہے۔‘
ویلیو سیکٹ بیلجیئم میں تھامس مور یونیورسٹی کے تعاون سے قائم ہونے والا شراکت داروں کا ایک کنسورشیم ہے جو انسانی خوراک کے طور پر ان کیڑوں، ٹڈی اور پیلے کیڑوں پر انسانی خوراک بننے کے امکانات پر تحقیق کر رہا ہے۔
ایک نئی گرانٹ میں سیاہ رنگ کی مکھیوں کو تحقیق کا حصہ بنایا جائے گا اور جانوروں کے کھانے میں کیڑے کی مصنوعات کے استعمال کو دیکھنے کے کام کو بڑھایا جائے گا۔
اس کے نتائج تمام شمالی یورپ میں خوراک اور زراعت کے کاروبار کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یورپی یونین کے تقریباً 30 فیصد صارفین کیڑوں پر مبنی کھانا کھانے کے لیے تیار ہیں۔
ویلیوں سیکٹ کا مقصد کیڑوں کی پیداوار اور پروسیسنگ کے معیار کو بہتر بنا کر، صارفین کے ٹیسٹ کر کے، اور اس کے ماحولیاتی اثرات کو کم کر کے اس تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔
کیڑوں پر مبنی کچھ اجزا پہلے ہی دستیاب ہیں اور پروفیسر کنگسٹن سمتھ کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں کیڑوں کی خوراک کی مصنوعات کے انتخاب میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’آپ اس حقیقت کو نہیں چھپائیں گے کہ (کھانے) میں کیڑوں کی پروٹین ہوتی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک روایتی ٹڈی کھانے کا خیال کسی ایسی چیز سے کم دلکش ہے جو کسی ایسی مصنوعات میں ہے جس کی ساخت قدرے مختلف ہے۔‘
’اگر ہم پچھلی چند دہائیوں میں کھانے کی کھپت میں تبدیلی کے انداز کو دیکھیں تو ہم مختلف قسم کے کھانوں، مختلف ذائقوں کو بہت زیادہ قبول کر رہے ہیں۔ ہم اپنے کھانے کے ذائقے میں سب ہی مختلف ثقافتوں کو اپنانا چاہتے ہیں، اور میرے خیال میں کیڑے مکوڑے اس میں محض اگلا قدم ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگلے 20 برسوں میں کھانے کے مینو میں کیڑوں سے تیار کردہ خوراک کا انتخاب ایک عام سی بات ہو گی۔‘
Comments are closed.