کیتھلین فولبگ: بچوں کی موت کے الزام میں قید کی سزا کاٹنے والی ماں نے معافی کو سائنس کی فتح قرار دیا
- مصنف, ٹام ہوسڈن
- عہدہ, بی بی سی نیوز سڈنی
ایک آسٹریلوی خاتون نے، جنھیں اپنے چار نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی، 20 برس بعد الزام غلط ثابت ہونے کے بعد معافی ملنے پر اس فیصلے کو ’سائنس اور سچ کی فتح‘ قرار دیا ہے۔
کیتھلین فولبگ کو پیر کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ ان کی مقدمے پر کی گئی ایک انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نئے شواہد سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے جرم کے بارے میں اتنے شکوک موجود ہیں کہ انھیں بری کیا جا سکتا ہے۔
ان پر آغاز میں اپنے بچوں کو کچلنے کا الزام تھا تاہم شواہد کے مطابق بچوں کی موت ایک نایاب جینیاتی عارضے کے باعث ہوئی۔
55 سالہ خاتون نے رہا ہونے پر ’شکرگزاری‘ اور ’انکساری‘ کا اظہار کیا۔
انھوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’گذشتہ 20 برس سے میں جیل میں ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچتی رہی ہوں اور سوچتی رہوں گی اور مجھے اس بارے میں افسوس ہوتا رہے گا۔‘
فولبگ نے اپنے دوستوں اور حامیوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے گذشتہ چند سالوں میں مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینے حوالے سے مہم چلائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اس اذیت سے ان کے بغیر کبھی بھی نہ بچ سکتی۔‘
فولبگ کو جیل کے دروازے پر ان کی پرانی دوست ٹریسی چیپمین ملنے آئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ فولبگ نے رہائی کا پہلا دن معمول کی آسائشوں سے خوشی حاصل کرتے ہوئے گزارے۔
ان میں ایک آرام دہ بستر، پیزا، گارلک بریڈ، کاہولا اور کوک شامل ہیں۔ چیپمین نے صحافیوں کو بتایا کہ فولبگ کو سمارٹ فون اور جدید ٹیکنالوجی دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کے دل میں کسی کے لیے نفرت نہیں ہے۔ وہ صرف ایسی زندگی گزارنا چاہتی ہیں جو وہ 20 برس سے نہیں گزار سکیں۔ وہ آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔‘
فولبگ کی وکیل کا کہنا تھا کہ اب وہ ان کی سزاؤں کے خلاف فوجداری عدالت میں اپیل دائر کریں گی۔
وکیل رہانی ریگو نے کہا کہ ’اگر آسٹریلیا واقعی اس المناک کہانی کے بارے میں کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے تو حکومت کو سزا کے بعد اپیل کے نظام میں تبدیلی کرنی ہو گی۔‘ انھوں نے کہا کہ فولبگ کے مقدمے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے بہت زیادہ وقت لگ گیا۔
فولبگ نے ہمیشہ سے ہی اپنی بے گناہی کی بات کی ہے اور اپنی سزا کے خلاف دو ناکام اپیلیں بھی کی ہیں۔ اس سے قبل ایک انکوائری میں ان کی سزا برقرار رکھی گئی تھی۔
تاہم پیر کو نیو ساؤتھ ویلز کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فولبگ کو غیرمشروط معافی دے دی گئی ہے کیونکہ ان کے مقدمے میں ایک اور انکوائری ان کے حق میں آئی ہے۔
اس انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ چاروں بچے طبعی موت مر سکتے ہیں۔
امیونولجسٹ کی ایک ٹیم کو معلوم ہوا کہ فولبگ کی بیٹیوں سارہ اور لورا میں ایک جینیاتی میوٹیشن تھ جو اچانک دل کا دورہ پڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔
اس دل کے عارضے کو کالموڈولینوپیتھی کہا جاتا ہے کہ یہ اتنی نایاب بیماری ہے کہ پوری دنیا میں صرف 134 ایسے کیسز کی تشخیص ہوئی ہے۔
اس حوالے سے بھی شواہد سامنے آئے کہ ان کے بیٹے میں ایک ایسی جینیاتی میوٹیشن تھی جو اچانک مرگی کا دورہ پڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ان کے بیٹے پیٹرک کو موت سے قبل دورے پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ فولبگ کی جانب سے ڈائری میں لکھی گئی عبارتوں کو ان کی جانب سے اقرارِ جرم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
ان کے سابق شوہر کریگ فولبگ نے ان کی ڈائری میں عبارتیں پڑھنے کے بعد پولیس سے رابطہ کیا تھا، جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ فولبگ نے بچوں پر تشدد کیا تھا۔
وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی اہلیہ ان کے بچوں کی موت کی ذمہ دار تھیں اور ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ فولبگ کی رہائی نے ’دو دہائیوں سے ان کے موکل کو ہونے والی اذیت میں اضافہ کیا ہے۔‘
فولبگ کی سزائیں ختم ہونے کی صورت میں وہ ریاست سے بھاری ہرجانہ مانگ سکتی ہیں۔
اگر ان کی اپیل کامیاب ہوتی ہے تو نیو ساؤتھ ویلز حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
Comments are closed.