جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

کیا یہ تجربہ گاہ میں ’آدھا بندر، آدھا انسان‘ بنانے کی تیاری ہے؟

ینان / کیلیفورنیا: چینی اور امریکی سائنسدانوں نے ایک مشترکہ تجربے کے دوران ایسے زندہ جنین (ایمبریو) تیار کیے ہیں جو انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیوں پر مشتمل ہیں۔

اگرچہ سائنسی لحاظ سے یہ ایک اہم کامیابی ہے لیکن انتہائی متنازعہ بھی ہے کیونکہ یہی تحقیق مزید آگے بڑھا کر ’آدھا بندر، آدھا انسان‘ جیسے عجیب الخلقت جانور تیار کیے جاسکیں گے۔

واضح رہے کہ انسانوں اور حیوانوں کے خلیات میں ملاپ کی کوششیں کم از کم پچھلے بیس سال سے جاری ہیں جن میں سؤر اور بھیڑ کے خلیوں کو انسانی خلیات سے ملایا جاچکا ہے۔

طبّی نقطہ نگاہ سے یہ کوششیں ’’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘‘ (Xenotransplantation) کا حصہ ہیں، جس کا مقصد کسی جانور کے جسم میں انسانی اعضاء ’’اُگا کر‘‘ دوبارہ اسی شخص میں پیوند کرنا ہے۔

زینوٹرانسپلانٹیشن میں کامیابی کی بدولت یہ ممکن ہوجائے گا کہ ایک انسان کے جسمانی خلیات کسی جانور میں داخل کرکے مطلوبہ عضو کی ہوبہو اور جیتی جاگتی نقل اس جانور میں ’’کاشت‘‘ کرلی جائے، جسے واپس اسی انسان کے جسم میں پیوند کردیا جائے۔

اس طرح متاثرہ افراد کےلیے عطیہ کردہ اعضاء اور ان سے وابستہ دیگر مسائل بھی ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

بھیڑ اور سؤر کے مقابلے میں انسان اور بندر میں مماثلت خاصی زیادہ ہے۔ اسی بناء پر سائنسدانوں کے سامنے سوال تھا کہ اگر انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیے آپس میں ملادیئے جائیں تو کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے نشوونما حاصل کر پائیں گے؟

یہ جاننے کےلیے چینی صوبے ینان کی کنمنگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سالک انسٹی ٹیوٹ فار بایولاجیکل اسٹڈیز کے ماہرین نے یہ اہم تحقیق مشترکہ طور پر انجام دی ہے۔

انسان اور بندر کا مخلوطہ (ہائبرڈ) بنانے کےلیے مکاک بندروں کے جنین (ایمبریو) لیے گئے جو ’’بلاسٹوسسٹ‘‘ مرحلے پر تھے، یعنی وہ مرحلہ کہ جس میں جنین صرف چند خلیوں والی ایک کھوکھلی گیند کی شکل میں ہوتا ہے۔

مکاک بندر کے بلاسٹوسسٹ میں انتہائی بنیادی اور ’’ہر فن مولا‘‘ قسم کے انسانی خلیاتِ ساق (stem cells) داخل کیے گئے، جو تقسیم در تقسیم اور تفریق در تفریق کے مرحلوں سے گزر کر کسی بھی عضو کے خلیات میں بدلنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’سیل‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ان تجربات میں بندر کے ہر بلاسٹوسسٹ میں 25 انسانی خلیاتِ ساق (hEPSCs) داخل کیے گئے۔

فلوریسنٹ ٹیگنگ کی مدد سے سائنسدانوں نے بندر اور انسان کے خلیوں میں ملاپ کے بعد ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھی۔ انہیں معلوم ہوا کہ ابتدائی طور پر بندر کے 132 جنین اور انسانی خلیات بڑی کامیابی سے آپس میں مربوط ہوگئے۔

ان میں سے 103 مخلوط جنین دس دن بعد تک زندہ رہے اور نشوونما کے مراحل طے کرتے رہے۔

البتہ، اس مرحلے کے بعد یہ مخلوط جنین زیادہ تیزی سے ختم ہونے لگے، یہاں تک کہ 19ویں روز تک صرف 3 مخلوط جنین ہی زندہ بچ پائے۔

تاہم، تجربے کی حدود/ تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ جنین بھی تلف کردیئے گئے۔

مزید تفصیلات کے مطابق، یہ تجربات چین میں کیے گئے کیونکہ ایسے حساس تجربات کی سہولیات امریکا کی نسبت چین میں کہیں بہتر ہیں جبکہ چینی سائنسداں بھی اس معاملے میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔

اس تجربے میں شریک ماہرین کا کہنا ہے کہ بندروں اور انسانوں کے خلیوں میں ملاپ، پچھلے تجربات کے مقابلے میں کہیں بہتر رہا۔

جینیاتی تجزیوں کی تکنیکوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نشوونما پاتے دوران اس مخلوط جنین میں خلیوں کے مابین رابطے کے انداز بھی بدل چکے تھے۔

You might also like

Comments are closed.