کیا چینی کرنسی یوآن عالمی منڈی میں امریکی ڈالر کو ٹکر دے سکے گی
روس نے چین کی غیر ملکی کرنسی یوآن کو زیادہ ترجیح دینا شروع کر دی ہے
رواں برس اپریل کے مہینے میں بلومبرگ نیوز میں ایک چونکا دینے والی خبر شائع ہوئی۔ خبر تھی کہ چین کی کرنسی یوآن نے روس میں اپنا سکہ جماتے ہوئے امریکی ڈالر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سنہ 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس نے چین کی غیر ملکی کرنسی یوآن کو زیادہ ترجیح دینا شروع کر دی اور اس سال روس نے زیادہ تر بین الاقوامی تجارت ڈالر کے مقابلے یوآن میں کی ہے۔
مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس کی بڑی کمپنیوں نے غیر ملکی تجارت کے لیے دیگر کرنسیوں پر انحصار بڑھا دیا تھا اور اس میں یوآن نے بازی مار لی ہے۔
یہی نہیں چین نے آگے بڑھ کر روسی اشیا کے لیے اپنی مارکیٹیں کھول دی ہیں تاکہ غیر ملکی کرنسی کے تبادلے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین کا یوآن جسے رینمنبی بھی کہا جاتا ہے اب امریکی ڈالر کو برابری کی ٹکر دینے کی تیاری کر رہا ہے؟
غیر ملکی کرنسیوں کا بول بالا
یوآن کی ترقی کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کا دنیا پر غلبہ کب، کیوں اور کیسے ہوا۔
آسان الفاظ میں، کسی بھی ایک غیر ملکی کرنسی کی مقبولیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے جاری کرنے والے ملک کی معاشی اور سٹریٹجک حالت کتنی اچھی ہے اور عالمی تجارت میں اسے کیا مقام حاصل ہے۔
ظاہر ہے کہ جب کوئی غیر ملکی کرنسی مضبوط ہوتی ہے تو دوسرے ممالک کے مرکزی بینک بھی اسے اپنی ’ریزرو کرنسی‘ کے طور پر رکھیں گے۔
امریکن انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے پیٹر ارل کے مطابق ’1450 کے بعد سے دنیا نے ’ریزرو کرنسی‘ کے چھ بڑے ادوار دیکھے ہیں، جن میں 1530 تک پرتگال کی کرنسی غالب تھی۔ اسے سپین کی کرنسی نے پیچھے چھوڑ دیا‘۔
17 ویں اور 18 ویں صدیوں میں نیدرلینڈز (ڈچ) اور فرانس کی کرنسیوں نے عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کیا، جسے برطانوی سلطنت کے عروج نے سمیٹ دیا۔
پہلی جنگ عظیم تک برطانوی پاؤنڈ سٹرلنگ زیادہ تر ممالک کی ’ریزرو کرنسی‘ ہوا کرتی تھی۔ لیکن سنہ 1930 کی دہائی کے بعد سے امریکی معیشیت اور عسکری قوت نے اپنی دھاک جمانی شروع کر دی اور ڈالر نے عالمی تجارت میں پاؤنڈ کو پیچھے دھکیل دیا، جو آج تک برقرار ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2022 تک دنیا کی تقریباً 75 فیصد تجارت صرف امریکی ڈالر میں ہوئی ہے اور آج بھی دنیا بھر کے 59 فیصد ممالک کے پاس امریکی ڈالر بطور ’ریزرو کرنسی‘ ہے۔
بہت سے ممالک نے اپنی غیر ملکی تجارت یا قرض کے لیے دوسرے آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں
یوآن کی طاقت
اگرچہ امریکی ڈالر عالمی تجارت میں آگے بڑھ رہا ہے، بہت سے ممالک نے اپنی غیر ملکی تجارت یا قرض کے لیے دوسرے آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں۔
برازیل کی وزارت خزانہ میں بین الاقوامی امور کی سیکریٹری تاتیانا روسیٹو کے مطابق ’دنیا کے 25 ممالک اس وقت چین کے ساتھ اپنی تجارت یوآن میں کر رہے ہیں‘۔
برازیل کی جانب سے تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے یوآن کو غیر ملکی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کے فیصلے کے بعد ہی اس کے پڑوسی ارجنٹائن نے بھی چین کے ساتھ تجارت میں ڈالر کے بجائے یوآن کو استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دریں اثنا چین نے آئی ایم ایف یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی نیت سے ایک ایشیائی مالیاتی فنڈ قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس میں اسے ملائشیا جیسے کچھ ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم داتوک سیری انور ابراہیم نے حال ہی میں پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا، ’ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملائیشیا کو امریکی ڈالر پر انحصار کرنا چاہیے‘۔
اس سے قبل مارچ میں سعودی عرب نے پہلی بار کہا تھا کہ وہ اپنا خام تیل ڈالر کے علاوہ غیر ملکی کرنسیوں میں فروخت کرنے کے لیے بات کر سکتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’سعودی عرب تیل کی ادائیگی کے لیے چینی یوآن قبول کرنے کے لیے چین کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے‘۔
گزشتہ سال ایران نے کہا تھا کہ اس نے روس کے ساتھ تجارت کے لیے امریکی ڈالر ترک کر دیا ہے اور اب تمام لین دین روسی روبل میں ہو گا۔ ایران نے یہ بھی کہا تھا کہ انڈیا، ترکی اور چین کے ساتھ مستقبل میں تجارت کے لیے اس کا یہی ارادہ ہے۔
چین کے مرکزی بینک نے گزشتہ ایک سال کے دوران یوآن کرنسی کو پاس کرانے کے لیے 29 ممالک کے 31 بینکوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں۔
مختلف ممالک ڈآلر پر انحصار کم کر رہے ہیں
ڈالر یا یوآن؟
اگر ہم چین کی معیشیت کی بات کریں تو آج تک چین نے عالمی منڈیوں میں گراوٹ، کووڈ کے بعد منفی اثر اور مہنگائی میں اضافے کے باوجود اپنی جی ڈی پی یا مجموعی گھریلو پیداوار میں ریکارڈ ترقی کی ہے۔
اس وقت چین کی سالانہ جی ڈی پی 17.7 ٹریلین امریکی ڈالر ہے، جو اسے امریکہ اور یورپی یونین کے بعد تیسری بڑی منڈی بناتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چین کی رینمنبی کرنسی یا یوآن عالمی تجارت کا صرف تین فیصد ہے جبکہ 87 فیصد حصہ ابھی بھی امریکی ڈالر کا ہے۔
یونیورسٹی آف میساچوسٹس میں معاشیات کی پروفیسر جیاتی گھوش کا خیال ہے کہ ’غیر ملکی زرمبادلہ کے غلبہ سے پہلے ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو بہتر بنایا جا سکے اور سری لنکا کے حالیہ بحران جیسے حالات سے بچا جا سکے۔ بصورت دیگر ڈالر یا یوآن، بیرونی ممالک اور بڑے کاروبار اپنی سرمایہ کاری واپس لینے میں جلدی کریں گے‘۔
ڈالر کے مقابلے یوآن کے لیے شفافیت بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ آج بھی چین کی معیشت میں بہت سے بڑے فیصلے متفقہ طور پر نہیں کیے جاتے۔ اسی طرح کے کچھ الزامات روس کی معیشت پر بھی لگائے گئے ہیں۔ کیونکہ دوسرے ممالک کو ڈالر کے بجائے کسی اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بنانے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس ملک کی کرنسی طویل عرصے تک قابل اعتماد رہ سکے گی یا نہیں۔
معروف ماہر اقتصادیات پال کرگمین نے نیویارک ٹائمز میں لکھا ہے کہ ’اس بات کے امکانات قوی ہیں کہ بہت سے ممالک امریکی ڈالر سے آگے کی دنیا کو آزمانا چاہیں گے۔ لیکن متبادل بنانے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ برسوں میں امریکی ڈالر کی ساکھ میں قدرے کمی آئی ہے لیکن آج بھی عالمی منڈیوں میں کوئی اس کے نزدیک نہیں آسکا۔ لیکن چین کی بڑھتی ہوئی تجارت اور امپورٹ ایکسپورٹ کے پھیلاؤ میں دوسرے ممالک کے سامنے اب کم از کم ایک آپشن ابھر رہا ہے۔
بہت کچھ اس بات پر بھی منحصر ہوگا کہ یوآن کو غیر ملکی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے والے ممالک مستقبل میں چین سے کس طرح تعلق رکھنا چاہیں گے۔
کیا چینی کرنسی یوآن عالمی منڈی میں امریکی ڈالر کو نگل سکے گی۔
Comments are closed.