بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا پاکستانی فوج کی جانب سے ’قومی اتفاق رائے‘ پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟

افغانستان کی صورتحال: پاکستان میں ’قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے‘ ممبران پارلیمنٹ کی جی ایچ کیو میں سکیورٹی بریفنگ

  • عمر فاروق
  • دفاعی تجزیہ کار

جنرل باجوہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں فوجی حکام نے افغانستان اور کشمیر پر پارلیمان کے اراکین کو بریفنگ دی ہے تاکہ افغانستان میں طالبان کے ‘ٹیک اوور’ کے نتیجے میں رونما صورتحال کے پیش نظر سلامتی کے اہم امور پر قومی اتفاق رائے تشکیل دینے کی راہ ہموار کی جاسکے۔

پیر کے روز پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ممبران نے جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا۔ انھیں فوج کے اعلیٰ حکام نے خطے کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس بریفنگ میں شرکت کی اور ممبران پارلیمنٹ کے سوالوں کے جواب دیے۔

جنرل باجوہ نے ممبران پارلیمنٹ کو بتایا کہ مغربی سرحدی زون کی مینجمنٹ کے لیے بروقت اقدامات کی وجہ سے چیلینجوں کے باوجود پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور ’ہم ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

فوجی قیادت بالخصوص بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تمام سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں تاکہ مغربی سرحد پر وقوع پزیر صورتحال پر ایک متفقہ موقف اور پوزیشن وضع ہوسکے جہاں منتخب افغان حکومت کے گرنے کے بعد طالبان ملیشیا فورسز برسرِ اقتدار آچکی ہیں۔

طالبان کے افغانستان میں آنے اور نام نہاد دولت اسلامیہ خراسان (داعش) کے ہلاکت خیز دہشت گرد حملوں کے بعد فوجی حکام کی جانب سے ارکان پارلیمان کو دی جانے والی یہ پہلی سکیورٹی بریفنگ ہے۔

جی ایچ کیو کا ڈائریکٹوریٹ آف ملٹری آپریشنز (فوجی کارروائیوں سے متعلق شعبہ) اراکین پارلیمان کو پاکستان کی مغربی سرحد پر کروٹیں لیتی صورتحال کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرے گا۔ یہ ‘بریف’ (آگاہی) فوجی قیادت کی ان مجموعی کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو درپیش سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہم معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی سیاسی اتفاق رائے کے لیے آوازیں پھر سے زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ تقاضا ایک بار پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آ رہا ہے۔ زوردار اشارے مل رہے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پھر سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی شدید خواہش مند ہے کیونکہ سرحدوں پر خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم مسائل ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں اور اس درد سر سے نمٹے کے لیے ملک میں قومی اتفاق رائے کا پیدا ہونا نہایت ضروری ہے۔

پی ڈی ایم

،تصویر کا ذریعہPML-N Social Media

،تصویر کا کیپشن

کیا فوج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملکی وسیاست میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟

پاکستانی فوج کی خارجہ پالیسی کے بڑے اور اہم معاملات پر سیاسی قائدین سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی اپیل نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملکی سیاست میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کامیاب ہو سکے گی؟

اتفاق رائے بنانے کی اس کوشش کو شروع کرنے کی بات فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آ رہی ہے جو تلخی کے ایک طویل دورانیہ کے بعد آئی ہے۔ اس دوران ہم نے سیاست کے سخت رویوں کو اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے درمیان جھونکوں کی طرح آتے جاتے اور بل کھاتے دیکھا ہے۔

یہ وہ عرصہ تھا جس میں اپوزیشن خاص طورپر پاکستان مسلم لیگ (ن) براہ راست فوجی قیادت پر سیاست میں ملوث ہونے اور اسلام آباد میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کے الزامات کے تیر برسا رہی تھی۔

یوسف رضا گیلانی، جنرل کیانی، جنرل پاشا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

پاکستان کی فوج ماضی میں بھی اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کراتی رہی ہے

2008 سے 2014 کے دوران اتفاق رائے کے معمار کے طور پر فوج کا کردار بہت واضح رہا ہے جب وفاق کے زیرانتظام سابقہ قبائلی علاقوں (فاٹا) میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری تھا۔

اس وقت بیرونی سطح پر پاکستان کو خارجہ پالیسی اور سلامتی کے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ اس زمانے میں کئی کل جماعتی کانفرنسز ہوئیں جن میں اس وقت کے بری فوج کے سربراہان نے ذاتی طور پر سیاسی قیادت سے یہ درخواست کی تھی کہ مکمل سیاسی اتفاق رائے سے ان کی حمایت کی جائے۔

2014 سے اب تک اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں فوجی قیادت کی کتاب سے غائب رہیں۔ اس دور میں حزب اختلاف کی جماعتیں بشمول پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں ہی فوجی قیادت پر یہ الزام لگا رہی تھیں کہ ان کے سیاسی حریفوں کا ساتھ دیا جارہا ہے اور یہ کہ فوجی قیادت سیاسی تنازعے میں ایک فریق بن چکی ہے۔

حکومت اس کوشش کو کیسے دیکھتی ہے؟

فواد چوہدری

،تصویر کا ذریعہMOIB

،تصویر کا کیپشن

اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کوئی نیا قدم نہیں: فواد چودھری

فوجی قیادت کی جانب سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے اس نئے قدم کو پی ٹی آئی کی حکومت اور پارلیمان میں موجود اپوزیشن کیسے دیکھتی ہے؟

فوجی قیادت کی کتاب سے طویل عرصہ تک ’سیاسی اتفاق رائے‘ کی یہ اصطلاح غائب رہنے کے بعد اگرچہ ایک بار پھر استعمال ہوئی ہے لیکن گذشتہ چھ برسوں میں اپوزیشن کی سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کے درمیان بدترین تلخی دیکھنے میں آئی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے خاص طور پر گذشتہ دو برسوں میں چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی اپوزیشن کی لفظی گولہ باری کا بنیادی ہدف بنے رہے۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کی یہ تازہ کوشش افغانستان میں سلامتی کی تبدیل ہوتی صورتحال کی وجہ سے سامنے آئی ہے جہاں امریکی افواج کی واپسی کے بعد جلد ہی خانہ جنگی چھڑ جانے کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی یہ کوشش کوئی نیا قدم نہیں۔ ٹیلی فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا موقف تھا کہ ’میرے خیال میں یہ حکومت کا وہی پرانا موقف ہے جس میں اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ آئیں اور عدالتی، سیاسی، معاشی اور خارجہ پالیسی کی اصلاحات کے لیے تعاون کریں۔‘

اس سوال کہ وزیر اعظم کی انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن سے تعاون کی درخواست اور فوجی قیادت کی جانب سے خارجہ پالیسی کے معاملات پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کی کوشش کو آپس میں جوڑا جاسکتا ہے، وزیر اطلاعات نے تیکھے انداز میں کہا: ’میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی نئی بات ہے۔۔۔ ہم یہ کہتے آرہے ہیں کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے واضح طورپر کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو کسی نے براہ راست کہا کہ وہ اپوزیشن کے خلاف براہ راست توہین آمیز زبان استعمال نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ یہ سلسلہ کتنی دیر تک برقرار رہے گا۔‘

قمر زمان کائرہ

،تصویر کا کیپشن

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے اپوزیشن کے بارے توہین آمیز رویہ اپنا رکھا ہے: قمر زمان کائرہ

انہوں نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ ہم ایک ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہم خارجہ پالیسی اور سلامتی پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وزیراعظم اور ان کی جماعت کا رویہ ہے۔

’تقریر اور پالیسی میں ان کا رویہ فسطائی ہے۔ وہ اپوزیشن کے لئے توہین آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔ آنے والے دن ہی ہمیں بتائیں گے کہ کیا وزیراعظم کا رویہ اور پالیسی تبدیل ہوئی کہ نہیں۔‘

قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن قائدین کے خلاف کرپشن کے الزامات کوئی مسئلہ نہیں، یہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ جس پر یہ الزام لگے ہوں وہ عدالت کا سامنا کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن خارجہ پالیسی اور سلامتی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرسکتے ہیں۔‘

آل پارٹیز کانفرنس کی اقسام اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں

مشرف دور کے بعد کے ابتدائی پانچ سالوں میں فوج نے اتفاق رائے کے معمار کے طورپر کردار ادا کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ عسکریت پسندوں اور مسلح جتھوں کے خلاف فیصلہ کن فوجی کارروائی کے آغاز سے قبل یا درپیش بیرونی خطرات مثلاً انڈیا سے ابھرنے والے خدشات اور واشنگٹن سے آنے والے سفارتی دباؤ کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں مکمل سیاسی تائید و حمایت کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔

gen musharraf, gen kiyani

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم مشرف دور کے اختتام پر 2014 کے بعد سیاست اور سیاسی قوتوں کے لیے فوجی قیادت کے رویہ میں واضح تبدیلی آئی۔ مشرف کی اقتدار سے روانگی کے فوری بعد کے دور میں فوج کا تعارف اتفاق رائے پیدا کرنے والی قوت کے طورپر سامنے آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فوج سوات اور جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائیاں شروع کرنے والی تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے داخلی سکیورٹی آپریشنز تھے لہذا فوج کو سیاسی منظر نامے میں اہمیت کی حامل تمام سیاسی قوتوں کی مکمل حمایت درکار تھی۔

ان دِنوں جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل احمد شجاع پاشا پر مشتمل فوجی قیادت کو سوات اور جنوبی وزیرستان کے موضوعات پر آل پارٹیز کانفرنسز میں سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھے دیکھنا گویا ایک معمول تھا۔ میڈیا میں اس وقت یہ خبر آئی تھی کہ جنرل کیانی نے سیاسی قائدین سے کہا ہے کہ اس سے قبل سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا نہایت ضروری ہے کہ ’میں سوات اور جنوبی وزیرستان فوج بھیجوں۔‘

فوج کی سوچ میں تبدیلی کے عوامل

2009 میں اتفاق رائے کے معمار سے 2013 میں ایک یا دیگر سیاسی قوتوں کے خلاف یک طرفہ سوچ تک فوجی قیادت کے اندر رویے کی تبدیلی کے محرکات اور عوامل کیا ہیں؟

2013 کے بعد اپوزیشن کی یہ شکایات عام تھیں کہ فوج اور اس سے منسلک انٹیلیجنس ایجنسیاں موجودہ حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔

میمو گیٹ سکینڈل میں برسراقتدار حکومت کے خلاف سپریم کورٹ جانے، موجود حکومت کے خلاف اپوزیشن کے دھرنے کے پیچھے مبینہ طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کے ہونے اور عمران خان کی احتجاجی سیاست میں فوج اور انٹیلیجنس سروسز کا ہاتھ ہونے کے الزامات رویے کی تبدیلی کا مظہر ہیں۔

2008 سے 2014 کے درمیان فوجی قیادت نے ‘آل پارٹیز کانفرنسز’ کے ذریعے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج واضح طور پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتی تھی تاکہ قبائلی علاقوں یا پھر کسی شہری علاقے میں فوجی کارروائی کا آغاز کرسکے جہاں صورتحال ہاتھ سے نکلتی جارہی تھی جبکہ فوجی دباؤ سے نجات کے علاوہ انڈیا جیسے ہمسائے سے آنے والے خطرات سے وہ نمٹ سکے۔ اس عرصے کے دوران ‘اے پی سی’ کا فورم واشنگٹن اور مغربی دارالحکومتوں سے آنے والی سفارتی دباؤ سے نجات پانے کے لیے بھی بروئے کار لایا گیا۔

سول ملٹری تعلقات کے ماہر سعید شفقت نے کہا کہ فوجی قیادت کے پاس ملک کے اندر اور باہر سے اتنا جواز موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ پاکستانی علاقے کے اندر عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے لیے آگے بڑھ سکتی ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سعید شفقت نے کہاکہ ’آل پارٹیز کانفرنسز اور فوج کی طرف سے اس طرح کی بریفنگز اس لیے ضروری ہیں کیونکہ بظاہر اس وقت ملک میں جمہوریت اورپارلیمان موجود ہے۔‘

فوجی کارروائیوں کی حمایت کے لیے اتفاق رائے کی کوشش

پہلی قسم کی ‘اے پی سی’ میں جو کانفرنسز شامل ہیں، ان میں سے ایک 16 مئی 2009 کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی جس میں جنرل کیانی نے تمام سیاسی قیادت کو بند کمرہ اجلاس میں سلامتی کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ اس تفصیلی بریفنگ میں فوجی حکام نے سیاسی قیادت کو سوات میں فوجی کارروائی کے تقریبا تمام پہلووں کے بارے میں بتایا تھا۔ فوج نے سیاسی قیادت سے کہا تھا کہ مالاکنڈ آپریشن کی حمایت کریں۔ اس کانفرنس میں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیاگیا تھا۔

جنرل کیانی نے سیاسی قائدین کو اس امریکی خواہش کے بارے میں بتایا تھا کہ پاکستان اپنی فوج مشرقی سرحد سے افغانستان کے ساتھ سرحد پر لے جائے اور اس صورتحال میں امریکہ یہ ‘فول پروف’ ضمانت دینے کے لیے تیار ہے کہ انڈیا پاکستان کے خلاف کوئی مہم جوئی نہیں کرے گا۔ تاہم جنرل کیانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی خود مختاری کے معاملے پر امریکہ کو بتا دیا گیا ہے کہ ہمیں کوئی عالمی ضمانت قبول نہیں۔

ممتاز سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری نے بی بی سی کو بتایا کہ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مشاورتی نشست کا انعقاد فوجی قیادت کے طرز عمل میں تبدیلی ظاہر کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں فوج قومی سلامتی کے اہم معاملات پر سیاسی اشرافیہ سے مشاورت میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ گورننس (حکمرانی) کے انداز میں بہتری آئی ہے اور اب فوج سیاسی اشرافیہ سے مشاورت میں زیادہ دلچپسی لیتی دکھائی دیتی ہے۔‘

اس سے ایک ہفتہ قبل آرمی چیف جنرل کیانی ملک کے جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کی اہمیت کا اشارہ دے چکے تھے۔ کور کمانڈرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا تھا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور عوام مسلح افواج کی حمایت کے ساتھ جمہوری نظام کے تحت بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس ‘اے پی سی’ کے انعقاد کے پس منظر میں واشنگٹن سے آنے والا سفارتی دباؤ پوری طرح سے عیاں تھا جو وادی سوات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ڈالا جا رہا تھا۔ محض دوہفتے قبل 20 اپریل کو اس وقت کے امریکی صدر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حکومت انتہائی کمزور ہے اور عوام کو بنیادی خدمات کی فراہمی کے قابل نہیں لہذا (یہ پاکستانی حکومت) ان کی حمایت حاصل نہیں کرسکتی۔

پاکستان کے استحکام کو یقینی بنانے میں امریکہ کا مفاد ہے اور یہ کہ جوہری صلاحیت سے مسلح عسکری جنگجو ریاست امریکی مفادات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔

اس قسم کی ‘اے پی سی’ وزیراعظم نوازشریف نے 18 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد بلائی تھی۔

انڈیا سے آنے والے دباؤ سے فوج کو نجات دلانے کے لیے اے پی سی کا انعقاد

دوسری قسم کی ‘آل پارٹیز کانفرنسز’ میں 2 دسمبر 2008 کو اسلام آباد میں ہونے والی ‘اے پی سی’ شامل تھی جس میں ممبئی (انڈیا) میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے مضمرات اور اس کے باعث علاقائی سلامتی کی صورتحال پر انڈین فوج کے دباؤ کے نتائج پر غور کیاگیا۔

تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔ سیاسی قیادت کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی کے مفادات کی حفاظت اور دفاع میں حکومت اور مسلح افواج کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طورپر اس لیے نہایت اہم تھا کیونکہ انڈین رہنما جنگ کی باتیں کر رہے تھے۔

اے پی سی کے انعقاد سے ایک روز قبل انڈیا نے ممبئی دہشت گرد حملوں کے لیے باضابطہ طورپر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا تھا۔ انڈین تحقیق کاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ حملہ آوروں نے تربیت پاکستان میں حاصل کی اور واحد زندہ بچ جانے والے حملہ آور نے اعتراف کرلیا ہے کہ انھیں احکامات پاکستان سے اعلی قیادت کی طرف سے مل رہے تھے۔

تاہم انڈیا اور پاکستان دونوں طرف کی فوج نے عالمی سرحد پر افواج کی کسی قسم کی کوئی بھی غیرمعمولی نقل وحرکت ہونے کی تردید کی تھی۔ فوجی ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ عالمی سرحد پر انڈیا کی طرف فوجی دستوں کی کوئی غیر معمولی نقل وحرکت نہیں دیکھی گئی۔

اسی طرح انڈین فوج نے بھی انڈین ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کی تردید کی کہ عالمی سرحد پر فوجی دستوں کی کوئی نقل وحرکت ہوئی ہے۔ یہ تردید ان غیرمعمولی خبروں کے بعد آئی تھی جن میں کہاگیا تھا کہ ممبئی دہشت گرد حملے کے بعد انڈین فوج کے دستوں کی نقل وحرکت شروع ہوگئی ہے۔

waziristan operation

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حسن عسکری کے مطابق مشاورتی نشستیں سیاسی رہنماؤں کے رویے میں ہونے والی حالیہ تبدیلی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’دوسری جانب سیاسی قیادت کی خارجہ پالیسی اور سلامتی سے متعلق امور پر کارگزاری سے متعلق تنقید میں کمی آئی ہے۔ اب ان کی تنقید حکومت پر زیادہ ہے لیکن خارجہ پالیسی اور سلامتی سے متعلق معاملات کے کم ناقد ہیں۔‘

واشنگٹن سے آنے والے دباؤ سے نجات کے لیے اے پی سی کا انعقاد

‘آل پارٹیز کانفرنسز’ کی تیسری قسم میں ستمبر2011 میں ہونے والی ‘اے پی سی’ آتی ہے جو اس وقت منعقد ہوئی تھی جب حقانی نیٹ ورک سے تعلق اور شمالی وزیرستان ایجنسی میں کاروائی کے طریقہ کار پر شدید امریکی دباؤ کا پاکستان کو سامنا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پاکستان کو امریکہ کا حلیف تصور کیا جارہا تھا اور پاکستانی فوجی قیادت اور امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے حکام کے درمیان کثرت سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ اس قسم کی ‘اے پی سی’ سے فوجی قیادت کی حمایت میں سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے تاکہ واشنگٹن سے آنے والے سفارتی دباؤ سے نجات حاصل کی جاسکے۔

عمومی نہیں تو کم ازکم اپوزیشن کے خیال کے مطابق 2014 سے اتفاق رائے کے معمار کے بجائے ایک جانبدار فریق کے طور پر فوج کے کردار میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی جیسی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الزامات کی تو بہتات ہے لیکن ان الزامات کو ثابت کرنا زیادہ تر مشکل ہوتا ہے۔ سیاسی مداخلت کے یہ الزامات فوج کی قیادت میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کے نوازشریف کے زوال میں کردار پر لگائے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کے بعض ارکان نے کھل کر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ریٹائرڈ جنرل ظہیر الاسلام پر عائد کئے کہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے پیچھے اصل میں وہ تھے۔

حسن عسکری کا موقف ہے کہ ایسی مشاورتی نشستیں خارجہ پالیسی کی تیاری کی سمت پر کوئی ٹھوس اثر تو نہیں ڈالتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تبدیلیاں داخلی سیاسی پہلوؤں کے حوالے سے اچھی ہیں۔۔۔ بصورت دیگر ان کا خارجہ پالیسی کی سمت پر خال خال ہی کوئی اثر ہوتا ہے۔۔۔

’میرے کہنے کا مطلب ہے کہ فوج سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایسے اجلاسوں سے ’آئیڈیاز‘ حاصل کرتی ہے۔۔۔ وہ یہ رائے حاصل کرتے ہیں کہ سیاسی اشرافیہ کیا سوچ رہی ہے اور ان کا جھکاؤ کس طرف ہے۔‘

فوج ایک بار پھر اتفاق رائے کے معمار کے کردار کی طرف واپس کیوں آرہی ہے؟

بہت سارے سینئر سیاسی تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ خارجہ پالیسی کے سنجیدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے مکمل سیاسی اتفاق رائے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ خارجہ محاذ پر درپیش سنگین مشکلات سے نبردآزما ہونے میں اس کی سیاسی قدر و قیمت فطری ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت دونوں کے ایک ہی موقف کا اظہار کرنا لازم ہے۔ اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی حکومت کو کریڈٹ دیاجاسکتا ہے کہ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کا طریقہ کار وضع کیا تھا جس میں اعلی ترین فوجی اور سیاسی قیادت موجود ہوتی ہے۔

اے پی سی کانفرنس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دوسری جانب دیگر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فوج پہلے ہی بہت مضبوط ہے کیونکہ نہ صرف پاکستان کے اندر سے بلکہ باہر سے بھی ان کو تائید و حمایت میسر ہے۔

سول ملٹری تعلقات کے امور کے ممتاز ماہر سعید شفقت کا موقف ہے کہ ’باہر کی دنیا سے فوجی قیادت کو جو سند جواز میسر ہے اس کا اندازہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں وَن آن وَن (بالمشافہ) ملاقات کرنے والے غیرملکی وزرائے خارجہ اور سفیروں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔‘

ماضی میں فوج قومی سلامتی کے اہم معاملات پر سیاسی اشرافیہ سے مشاورت کی کوئی زیادہ مشتاق نہیں رہی۔ یہ صورتحال اب بدل رہی ہے، اب وہ سیاسی قیادت سے مشاورت کی طرف مائل ہے۔

اندازِ حکمرانی بہتر ہوا ہے اور اب فوج سیاسی اشرافیہ سے مشاورت کے لیے زیادہ آمادہ و راغب نظر آتی ہے۔

دوسری جانب سیاسی قیادت خارجہ پالیسی اور سلامتی سے متعلق امور پر کارگزاری پر کم تنقید کر رہی ہے۔ ان کی تنقید کا رخ حکومت کی طرف زیادہ اور خارجہ پالیسی اور سلامتی سے متعلق امور پر کم ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.