سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کے جج بن جاؤ تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر 140 کے قریب ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے ججز کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا کے خط پر تنقید کی اور ریمارکس دیے کہ کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پیمرا نے ججز سے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا ہے، پاکستان میں سب آزاد ہیں، جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے، پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججز کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟ سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں، آئینی ریگولیٹری باڈی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے اسٹیٹس میں ترقی کردی، کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟ پیمرا ٹی وی چیلنز کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سول جج کو گالیاں دے دی جائیں پیمرا نہیں بولتا، کیا ماتحت عدلیہ کے ججز کم تر مخلوق ہیں؟ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے، پیمرا انہی ٹی وی چینلز کے لائسنسوں پر کماتا ہے، جب ٹی وی خبریں نہیں چلا سکے گا تو لوگ سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہوجائے، اگر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے۔
Comments are closed.