ایران آذربائیجان کشیدگی: آذربائیجان، پاکستان اور ترکی کی مشترکہ فوجی مشق ’تھری بردرز 2021‘ اور ایران کا ردِعمل
آذربائیجان کی سرحد کے قریبی ایرانی فوجیوں کی مشق
ایران اور آذربائیجان کے درمیان کشیدگی بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ 700 کلومیٹر طویل مشترک سرحد والے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان رشتے اب تک پرامن اور معمول کے رہے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں اس رشتے میں نشیب و فراز نظر آئے ہیں۔
تعلقات میں اس واضح بگاڑ کی کہانی گذشتہ ماہ اس وقت شروع ہوئی جب ترکی، پاکستان اور آذربائیجان نے مل کر ایرانی سرحد سے تھوڑے فاصلے پر مشترکہ فوجی مشق شروع کی۔
اس فوجی مشق کو ’تھری بردرز -2021‘ کا نام دیا گیا۔ یہ مشقیں ابھی شروع ہی ہوئی تھیں کہ ایران نے بھی آذربائیجان کے قریب فوجی مشق کا اعلان کیا۔
ایران کی فوجی مشق کی مذمت کرتے ہوئے آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے کہا ہے کہ ’یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔‘
ترک نیوز ایجنسی انادلو کو انٹرویو دیتے ہوئے علییف نے کہا کہ ‘کوئی بھی ملک اپنی سرزمین پر کوئی فوجی مشق کر سکتا ہے۔ وہ خود مختار ہے، لیکن یہ اب کیوں ہو رہا ہے اور یہ ہماری سرحد پر ہی کیوں ہو رہا ہے؟’
انھوں نے مزید کہا کہ 20 سال قبل سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ایران نے ان کی سرحد کے اتنے قریب اپنی طاقت کے مظاہرے کا منصوبہ بنایا۔
ایران کا سخت جواب
آذربائیجان کے صدر کے بیان کے بعد ایران خاموش نہیں رہا بلکہ فوری طور پر یہ جواب دیا کہ یہ اس کی ’خودمختاری‘ کا معاملہ ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں کی جانے والی فوجی مشقیں ہماری خودمختاری کا سوال ہیں۔‘
انھوں نے بیان میں کہا کہ ’ایران اپنی قومی سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘
اس کے بعد خطیب زادہ نے اپنے بیان میں جو کہا اس سے اس کشیدگی کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے اسرائیل کا نام لیے بغیر کہا کہ ’وہ اپنی سرحد کے قریب یہودی حکومت کی موجودگی کو برداشت نہیں کریں گے۔‘
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے 30 ستمبر کو آذربائیجان کے نئے سفیر سے ملاقات کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ قومی سلامتی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے سرحد پر یہودی حکومت کی موجودگی کو نہیں دیکھ سکتے اور اس کے خلاف کوئی بھی ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔
اسی دوران آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ایران کے سفیر عباس موسوی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایران کی فوجی مشقیں پہلے سے ہی طے تھیں اور آذربائیجان کے لیے ‘خطرہ’ نہیں ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ
کشیدگی کی اصل وجہ کیا ہے؟
ایران اور آذربائیجان کے درمیان نظر آنے والی اس کشیدگی کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔
ترکی، پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کے علاوہ اس کشیدگی کی وجوہات میں اسرائیل، آذربائیجان کا قرہباخ پر قبضہ اور ایران میں رہنے والے نسلی آذربائیجانی بتائے جا رہے ہیں۔
سب سے پہلے اسرائیل کی بات کریں تو آذربائیجان میں اسرائیل کی واضح موجودگی نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی ان دونوں ممالک کی سرحد ایک ہے، لیکن اسرائیل آذربائیجان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔
آذربائیجان کے اسرائیل کے ساتھ ورکنگ تعلقات ہیں، لیکن یہ بات ایران کے خلاف اسرائیلی حکمت عملی کی باضابطہ حمایت نہیں کرتی۔
17 ستمبر کو نماز جمعہ کے بعد ایران کے رہنما آیت اللہ حسن عاملی نے فارس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ فوجی مشق اسرائیل کو ایک پیغام دے گی۔
انھوں نے کہا: ‘اسرائیل اس لیے آذربائیجان آیا ہے تاکہ وہ ایران کے خلاف سازش کر سکے۔’
آرمینیا پر آذربائیجان کی فتح بھی ایک وجہ ہے؟
گذشتہ سال ستمبر میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان متنازع ناگورنو قرہباخ علاقے کے لیے جنگ ہوئی تھی۔
چھ ہفتوں کی جنگ میں تقریبا 6000 جانیں ضائع ہوئیں اور آذربائیجان نے قرہباخ کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اب اس خطہ کے آذربائیجان کے قبضے میں آنے کے بعد ایران کے تجارتی راستے پر بڑا اثر پڑا ہے۔
آذربائیجان-آرمینیا کے درمیان جنگ میں ایران خاموشی سے آرمینیا کی حمایت کر رہا تھا جبکہ آذربائیجان، ایران کی طرح شیعہ اکثریتی ملک ہے۔
ایران کو قرہباخ تجارتی راستے کے ذریعے مغربی ایشیا اور روس تک رسائی حاصل ہے لیکن اب وہ آذربائیجان کے کنٹرول میں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تہران میں مقیم صحافی فاطمہ کریم خان نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ جب تک قرہباخ آرمینیا کے قبضے میں تھا اس وقت تک ایران ٹرک اور دیگر ٹرانسپورٹ کے ذریعے بغیر کسٹم کے ادا کیے مشرق وسطی اور روس سامان بھیجا کرتا تھا۔
فاطمہ کریم خان کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے آذربائیجان کا قرہباخ کے علاقے پر کنٹرول ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ایران کا مغربی ایشیا میں داخلہ بند ہو گیا ہے اور وہ آرمینیا پہنچنے کے لیے ایران سے پیسے وصول کر رہا ہے۔
تاہم، آذربائیجان کے لیے یہ پالیسی کافی آسان معلوم ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی خود مختاری کا معاملہ ہے اور وہ اپنی سرزمین سے نقل و حرکت کے لیے محصول لے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ آذربائیجان کو تشویش ہے کہ ایرانی ٹرک اس راستے کو اسلحہ منتقل کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں جو اس کے دشمن آرمینیا کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایرانی ٹرکوں کے روکے جانے کی وجہ سے ایران میں غصہ ہے۔ حال ہی میں دو ایرانی ٹرک ڈرائیوروں کو آذربائیجان نے ’روڈ ٹیکس‘ نہ دینے کی وجہ سے حراست میں لیا تھا جس کے بعد ایرانی وزارت خارجہ نے انھیں فوری طور پر رہا کرنے کے لیے کہا تھا۔
کریم خان نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ آذربائیجان کی جانب سے ٹرکوں کو روکنا ایران کے لیے ناقابل قبول ہے اور مغربی ایشیا میں اس کی تجارتی سلامتی کو خطرہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایران فوجی مشقوں کے ذریعے آرمینیا اور مغربی ایشیا کے سڑک کے ذریعے رابطے کے بارے میں اپنی سنجیدگی ظاہر کرنا چاہتا ہے۔
ایران آذربائیجان کشیدگی اور فوجی مشقیں
زیادہ تر آذربائیجانی ایران کے شمالی علاقے کو جنوبی آذربائیجان کہتے ہیں، جہاں تقریباً دو کروڑ آذربائیجانی نژاد لوگ رہتے ہیں۔
بہت سے آذربائیجانی قوم پرست اور دانشور ثقافتی اور سماجی شناخت کے نام پر شمالی اور جنوبی حصوں کو یکجا کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جسے ‘گریٹر آذربائیجان’ کہا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں ایران کو پریشان کرتی ہیں۔
یہ مسئلہ اس وقت بڑھ گیا جب ترکی-پاکستان-آذربائیجان تینوں نے مل کر فوجی مشقیں شروع کیں۔
اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو اور آذربائیجان میں سابق امریکی سفیر میتھیو بریزا نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ ’ایران کی سرحد پر تین ملکی مشترکہ فوجی مشق آذربائیجانی عوام کو ایران کے خلاف ایک قسم کی طاقت دکھاتی ہے۔‘
بریزا کا خیال ہے کہ ’ جواب میں ایران سرحد کے قریب یہ فوجی مشق کر کے آذربائیجانی برادری کو ایک اشارہ دینا چاہتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ آذربائیجانی نسلی برادری کے لیے بھی ایک اشارہ ہے، جن کی شمالی ایران میں خاطر خواہ موجودگی ہے۔’
آذربائیجان اور آرمینیائی جنگ کے دوران شمالی ایران میں آذربائیجان کی حمایت میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
تہران اسی آذربائیجانی علیحدگی پسند برادری کے بارے میں فکرمند ہے اور اس کے خیال میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے میتھیو بریزا کا کہنا ہے کہ سرحد کے قریب یہ فوجی مشقیں ملک میں رہنے والے آذربائیجان کے لوگوں کے لیے اشارہ ہے۔
دوسری جانب نیدرلینڈز کی لیڈن یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر پروفیسر توراز اتاباکی نے ریڈیو فری یورپ کو بتایا کہ ایران بھی نظر انداو ہونے کے باعث پریشان ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘ترکی نیٹو فوج کا دوسرا سب سے بڑا حلیف ہے، جبکہ پاکستان خطے میں ایٹمی طاقت ہے۔ جب یہ دونوں ممالک آذربائیجان کے ساتھ فوجی مشقوں میں مصروف ہیں تو یہ باتیں روس اور ایران کو پریشان کرتی ہیں۔ اسلامی ممالک کی افواج کی یہ مشقیں اس کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔’
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آذربائیجان کی سرحد پر ایران کی فوجی مشقیں ایک ہی وقت پر کئی محاذوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہیں۔
Comments are closed.