کیا انڈیا کی چاول کی برآمد پر پابندی خوراک کے بحران کو جنم دے سکتی ہے؟
- مصنف, سوتیک بسواس
- عہدہ, نامہ نگار
اگر انڈیا اشیائے خورد و نوش کی برآمدات پر پابندی لگا دے تو کیا ہو گا؟ خاص طور پر کسی ایسی چیز پر جو دنیا کے اربوں لوگ روزانہ کھاتے ہیں۔
مقامی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے انڈیا نے 20 جولائی سے نان باسمتی سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی ہے۔
اس اعلان کے بعد امریکہ اور کینیڈا میں انڈین دکانوں پر گھبراہٹ میں خریداری اور خالی شیلفوں کی خبریں اور ویڈیوز سامنے آئیں۔ اس وجہ سے چاول کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
چاول کی ہزاروں قسمیں ہیں جن کو اگایا اور کھایا جاتا ہے لیکن چار ایسی قسمیں ہیں جن کی عالمی سطح پر تجارت ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر زیادہ تجارت پتلے اور لمبے دانوں والے انڈیکا چاول کی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ خوشبودار باسمتی چاول، سوشی یا ریسوٹو میں استعمال ہونے والے چھوٹے دانوں والے جاپونیکا چاول اور مٹھائی میں استعمال ہونے والے چپکنے والے چاول کی عالمی سطح پر تجارت ہوتی ہے۔
انڈیا چاول برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق عالمی سطح پر چاول کی تجارت میں 40 فیصد حصہ انڈیا کا ہے۔ باقی ملکوں میں تھائی لینڈ، ویتنام، پاکستان اور امریکہ شامل ہیں۔
چین، فلپائن اور نائجیریا چاول کے بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ملک چاول تب برآمد کرتے ہیں جب ان کی مقامی رسد میں کمی ہو۔ افریقہ میں چاول کا استعمال زیادہ ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیوبا اور پاناما میں بھی چاول مرکزی اناج کی حیثیت رکھتا ہے۔
گذشتہ سال انڈیا نے 140 ملکوں میں 22 ملین ٹن چاول برآمد کیا۔ ان میں سے چھ ملین سستے انڈیکا سفید چاول تھے۔
اندازوں کے مطابق گذشتہ سال عالمی سطح پر چاول کی 56 ملین ٹن تجارت ہوئی تھی۔
انڈیا کی برآمدات پر پابندی کے بعد کینیڈا میں ایک گروسری سٹور نے چاول کے ایک بیگ کو ایک فیملی تک محدود کر دیا
عالمی تجارت میں انڈیکا سفید چاول کا سب سے بڑا حصہ ہے جو 70 فیصد ہے۔ انڈیا نے اب اس کی برآمد روک دی ہے۔ اس سے پہلے گذشتہ سال انڈیا نے ٹوٹے ہوئے چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی تھی اور باسمتی کے علاوہ باقی چاول کی برآمدات پر 20 فیصد ڈیوٹی لگا دی۔
یہ حیران کن بات نہیں کہ جولائی میں ہونے والی پابندی کے بعد یہ تشویش کی جا رہی ہے کہ چاول کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے چیف اکانومسٹ پیئر اولیور گورنچاس کا خیال ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے اس سال عالمی سطح پر اناج کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کے ادارے (ایف او اے) میں چاول کی منڈی کی تجزیہ کار شرلی مصطفیٰ نے مجھے بتایا کہ انڈیا کی طرف سے یہ پابندی مناسب وقت پر نہیں آئی۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 2022 کی ابتدا سے چاول کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ جون سے چاول کی قیمت میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔
ترسیل دباؤ میں ہے کیونکہ نئی فصل کی مارکیٹوں میں آمد میں ابھی تقریباً تین ماہ باقی ہیں۔ یہ اس کی دوسری وجہ ہے۔
انڈیا میں مون سون کی بارشیں اور پاکستان میں سیلاب، جنوبی ایشیا کے خراب موسم کی وجہ سے چاول کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے چاول کی فصل اگانے کے خرچ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے متعدد ملکوں کے لیے برآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے کاروبار کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
گذشتہ ایک سال سے انڈیا میں کھانے کی اشیا میں مہنگائی آئی ہے۔ گذشتہ اکتوبر سے چاول کی قیمت میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے
شرلی مصطفیٰ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ایسی صورتحال ہے جہاں درآمد کرنے والے مجبور ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ خریدار قیمتوں میں مزید اضافے کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔‘
سٹریٹیجک ریزرو اور پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) کے لیے انڈیا نے اپنے سرکاری اناج خانوں میں 41 ملین ٹن چاول زخیرہ کر رکھا ہے۔ پی ڈی ایس انڈیا کے 700 ملین سے زیادہ غریب لوگوں کو سستی خوراک کی رسائی دیتا ہے۔
گذشتہ ایک سال سے انڈیا میں کھانے کی اشیا مہنگی ہوئی ہیں۔ گذشتہ اکتوبر سے چاول کی قیمت میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ سے اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے پہلے انڈیا کی حکومت سیاسی دباؤ کا شکار ہے۔
اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں آنے والے مہنوں میں مختلف ریاستی انتخابات انڈین حکومت کے لیے ایک چیلینج ہے۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (افپری) کے جوزف گلوبر نے کہا ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ باسمتی کے علاوہ چاول کی برآمدات پر پابندی بڑی حد تک احتیاطی تدبیر ہے اور امید ہے کہ یہ عارضی ثابت ہو گی۔‘
انڈیا کی زرعی پالیسی کے ماہر دیویندر شرما کہتے ہیں کہ حکومت متوقع پیداواری کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ انڈیا کو برآمدی پابندی سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ عالمی غذائی تحفظ کے لیے نقصان دہ ہے۔
افپری کے مطابق تقریباً 42 ممالک کی نصف چاول کی درآمدات انڈیا سے ہوتی ہے۔ کئی افریقی ممالک میں چاول کی درآمدات میں انڈیا کا حصہ 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
کئی افریقی ممالک میں چاول کی درآمدات میں انڈیا کا حصہ 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے
شرلی مصطفیٰ کہتی ہیں کہ ’ان پابندیوں سے کمزور لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی آمدن کا بڑا حصہ خوراک خریدنے پر وقف کرتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں انھیں کھانے کی مقدار کم کرنے پر یا ایسی متبادل خوراک لینے پر جو غذائیت کے لحاظ سے اچھی نہیں ہوتی یا رہائش اور خوراک جیسی دیگر بنیادی ضروریات کے اخراجات میں کمی لانے پر مجبورکر سکتی ہے۔‘
خوراک کی برآمد پر پابندی نئی نہیں۔ افپری کے مطابق گزشتہ سال یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے، خوراک پر برآمدی پابندیاں لگانے والے ممالک کی تعداد تین سے بڑھ کر 16 ہو گئی ہے۔
انڈونیشیا نے پام آئل کی برآمدات پر پابندی لگا دی، ارجنٹائن نے گائے کے گوشت کی برآمد پر پابندی لگا دی، ترکی اور کرغزستان نے اناج کی متعدد مصنوعات پر پابندی لگا دی۔
کورونا کی وبائی مرض کے پہلے چار ہفتوں کے دوران 21 ممالک نے مختلف مصنوعات پر برآمدی پابندیاں نافذ کیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی برآمدات پر پابندی سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ دلی میں مقیم تھنک ٹینک انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز (آئیکریئر) کے اشوک گلاٹی اور رایا داس نے خبردار کیا کہ یہ ’یقینی طور پر سفید چاول کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا اور بہت سے افریقی ممالک کے غذائی تحفظ کو بری طرح متاثر کرے گا۔‘
ان کے مطابق ’جی 20 میں ایک ذمہ دار رہنما‘ بننے کے لیے انڈیا کو ایسی اچانک بابندیاں نافذ کرنے سے اجتناب کرنا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بڑا نقصان یہ ہو گا کہ انڈیا کو چاول کے ایک بہت ہی ناقابل بھروسہ فراہم کنندے کے طور پر دیکھا جائے گا۔‘
Comments are closed.