کیا امریکی صدر بائیڈن کو غزہ میں اسرائیلی مہم جوئی پر اندرونی اختلافات کا سامنا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, باربرا پیلٹ ایشر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
امریکی صدر جو بائیڈن پر غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی روکنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
اگر ایک جانب ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں اور خوفناک انسانی صورتحال نے امریکہ کے عرب ممالک اتحادیوں کو بے چین کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب بائیڈن انتظامیہ کے اندر ہی تنقید کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔
25 سال تک امریکی محکمہ خارجہ میں عرب اسرائیل تعلقات کے مشیر کے طور پر کام کرنے والے ایرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ ’میں تباہی کے پیمانے پر دنگ ہوں، میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا۔‘
ویتنام جنگ کے بعد بنائے گئے چینل کے ذریعے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کو سینکڑوں خطوط بھیجے گئے ہیں۔ یہ چینل حکومتی ملازمین کو کسی بھی پالیسی پر اپنے اختلاف کو رجسٹر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) میں ایک کھلا خط بھی جاری کیا گیا ہے۔
سیاسی تقرریوں اور درجنوں سرکاری اداروں کی نمائندگی کرنے والے عملے کے ارکان کی جانب سے وائٹ ہاؤس کو ایک علیحدہ خط بھیجا گیا ہے۔
کیپیٹل ہل کے عملے کی طرف سے بھی کانگریس کے اراکین کو ایک خط بھیجا گیا ہے۔
بہر حال ان میں سے زیادہ تر اختلاف نجی نوعیت کے ہیں اور بہت سے گمنام ہیں کیونکہ اس کے ان کے روزگار پر اثرات ہو سکتے ہیں، اس لیے اس کی مکمل تصویر واضح نہیں ہے۔
لیکن متعدد رپورٹس بتاتی ہیں کہ غزہ پر امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج کی لہر میں سینکڑوں لوگوں نے دستخط کیے ہیں۔
انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ خدشات بہت حقیقی ہیں اور لوگ اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ان خطوط میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ صدر بائیڈن فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کریں اور غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے اسرائیل کے ساتھ کسی حد تک سختی بھی کریں۔
کچھ خطوط کا لہجہ سخت ہے اور یہ نوجوان سیاسی کارکنوں کے جذبات کی بازگشت کرتے ہیں اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کے ناقدین اور فلسطین کے ہمدردوں کے درمیان رویوں میں نسلی فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔
تاہم یہ خطوط سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے کی مذمت کرتے ہیں، جس میں 1200 افراد مارے گئے تھے اور مرنے والوں میں زیادہ تر اسرائیلی تھے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد سے اب تک 12000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ میں شہریوں کے نقصانات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم اس نے حماس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی پالیسی کونسل کی سربراہ اور سابق امریکی سفارت کار جینا ابرکومبی-ونسٹینلے نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکت پر پریشان ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ’اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی حمایت انتہائی یک طرفہ ہے۔‘
جینا نے اپنے دور میں متعدد اختلافی خطوط پر دستخط کیے ہیں اور بہت سے ملازمین نے ان مسائل پر ان سے مشورہ طلب کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان اپیلوں کی دوسروں کے مقابلے میں ’وسیع رسائی‘ حاصل ہے۔
بائیڈن کا ردِ عمل کیسا ہے؟
جینا ابرکومبی ونسٹینلے کا خیال ہے کہ عدم اطمینان کی اس لہر میں امریکہ کی زبان اور رویوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ کیونکہ حماس کے حملے کے فوراً بعد صدر بائیڈن نے جذباتی تقریر میں اسرائیل کی غیر متزلزل حمایت کی تھی۔
غزہ میں ہونے والی تباہی اورعرب دنیا میں غم و غصے کی لہر کے باعث بائیڈن انتظامیہ کی شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بیان بازی مزید سخت ہو گئی ہے۔ حال ہی میں بلنکن نے کہا کہ غزہ میں ’بہت زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔‘
وہ اور دیگر اعلیٰ حکام اب انسانی امداد کو نہ صرف اخلاقی ذمہ داری کے طور پر بلکہ سٹریٹجک نقطہ نظر سے بھی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق بلنکن نے صورتحال سے مایوس ملازمین سے ملاقات میں اسی بات کا عندیہ دیا تھا۔
انھوں نے واضح کیا کہ ’یہ صرف امریکہ ہی ہے جو غزہ کو انسانی امداد فراہم کرنے اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے معاہدے کی ثالثی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وزیر خارجہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے ہاں بے اطمینانی ابل رہی ہے اور انھیں اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔
انھوں نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے دورے سے واپس آنے کے بعد ایک ای میل لکھی ہے جسے بی بی سی نے دیکھا ہے۔ اس میل میں انھوں نے لکھا کہ ’آپ جو شئیر کرتے ہیں وہ ہم سن رہے ہیں، وہ ہماری پالیسی اور ہمارے پیغامات کے لیے اشارہ ہیں۔‘
لیکن اس سے امریکہ کی بنیادی پالیسی اور نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر اس کا زیادہ اثر ہوا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے اختلافات کا کھل کر اظہار کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے۔
بلنکن نے جنگ کے بعد غزہ کی فلسطینی انتظامیہ کے حوالے سے جان بوجھ کر کچھ تجاویز پیش کیں لیکن اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے امریکی صدر مسلسل فون پر بات کر رہے ہیں اور امریکہ کے سینیئر حکام اسرائیل پر جنگ کے اصولوں پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے علاقے کے ہنگامی دورے کر رہے ہیں۔
لیکن اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ بائیڈن انتظامیہ اپنا اصل ہتھیار استعمال کرنے جا رہی ہے، یعنی اسرائیل کو بھاری فوجی امداد فراہم کرنے کو کسی شرط کی پابند کرنے جا رہی ہے کیونکہ اس امداد میں حماس کے حملے کے بعد زبردست اضافہ ہوا ہے۔
رواں ہفتے بائیڈن نے اشارہ کیا کہ امریکہ نے اسرائیل کو اپنی فوجی کارروائیاں ختم کرنے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی ہے۔
صدر بائيڈن نے کہا کہ ’یہ اس وقت ہی ختم ہوگا جب حماس اسرائیل کے خلاف قتل و غارت، تشدد اور دیگر خوفناک کام کرنے کے قابل نہیں رہ جائے گی۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی دفترِ خارجہ کے سابق مشیر ایرون ڈیوڈ ملر کے مطابق ’اصل میں بات یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا ایک ہی مقصد ہے۔ دونوں ایک فوجی تنظیم کے طور پر حماس کی صلاحیت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں کہ دوبارہ اُن کی جانب سے کبھی بھی سات اکتوبر کی طرز کا حملہ نہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ایک مکمل جنگ بندی جو امن کے حصول کے لیے دشمنی کو ختم کرتی ہے، بنیادی طور پر کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘
ملر نے کہا کہ ’اس سے صرف جنگ میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ آپ مذاکرات کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کر سکیں گے۔ حکمت عملی مختلف ہوسکتی ہے، لیکن اس دوران مقصد ایک ہی رہتا ہے۔‘
تو پھر صدر بائیڈن کو راستہ تبدیل کرنے پر کیا مجبور کرے گا؟
غالب امکان ہے کہ اُن کی اندرونی مخالفت نہ ہو۔ اس تمام تر کشمکش کے باوجود، انتظامیہ میں اختلاف رائے ابھی تک بغاوت کی حد تک نہیں پہنچا ہے، تاہم یہ ضرور ہوا ہے کہ دفتر خارجہ کے صرف ایک اہلکار نے استعفیٰ دیا ہے۔
ملر کا کہنا ہے کہ ’اس کے زیادہ امکانات بیرونی ہوں گے، جیسے حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی، یا ایک اسرائیلی آپریشن جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر فلسطینی ہلاکتیں ہوئیں، اگرچہ اس کی حد کافی زیادہ مقرر کی گئی ہے۔‘
امریکی صدر بائیڈن کے لیے سیاسی خطرات بھی موجود ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ان کی یکجہتی ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کی جانب سے مشترکہ ہے، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے نوجوان اور زیادہ بائیں بازو کے عناصر میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ان کی انتخابی مہم کے سابق عملے نے صدر کو اپنا خط ارسال کیا ہے جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
2020 کے انتخابات کے دوران بائیڈن کی ڈیجیٹل ٹیم میں کام کرنے والے گوین شروئڈر جنگ بندی کے اس مطالبے کے دستخط کنندگان میں سے ایک تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’غزہ میں اسرائیل کے ’غیر متناسب ردعمل‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی زندگیاں ’ہمارے اسرائیلی اتحادیوں سے کم ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بائیڈن کو منتخب کرانے پر شرم نہیں‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’میں ہر روز اس سے نبرد آزما ہوتی ہوں، کیا یہ وہ انتظامیہ ہے جس کے لیے میں نے سخت جدوجہد کی؟‘
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ جذبات اگلے سال دوبارہ منتخب ہونے کے لیے جو بائیڈن کی کوششوں کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں، لیکن یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کس حد تک جا رہے ہیں۔
وہ اسرائیلی رہنماؤں سے کہتے رہے ہیں کہ جس طرح سے وہ اس جنگ کو لڑیں گے وہ اس بات کا تعین کرے گا کہ اس کے ختم ہونے کے بعد کیا ممکن ہے۔ وہ اس پر کتنا اثر انداز ہو سکتا ہے یہ اہم ہے، کیونکہ وہ نتائج کے ساتھ منسلک ہوگا.
Comments are closed.