عزالدین القسام: شام کے پیش امام جنھوں نے فلسطین میں یہودی آباد کاروں کیخلاف بندوق اٹھائی

تصویر

،تصویر کا ذریعہOPEN SOURCE (SOCIAL MEDIA)

،تصویر کا کیپشن

عزالدین القسام

  • مصنف, بی بی سی
  • عہدہ, عربی

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ایک نام جو دنیا بھر کے میڈیا میں خبروں کی زینت بنا وہ ’عزالدین القسام بریگیڈز‘ کا تھا۔ القسام بریگیڈز حماس کا عسکری ونگ ہے۔

اگرچہ اس مسلح عسکریت پسند گروہ کا نام تو بہت شد و مد سے میڈیا میں آیا تاہم بہت کم لوگ ہی یہ جانتے ہیں عزالدین حقیقت میں کون تھے جن کے نام پر یہ مسلح گروہ ترتیب دیا گیا۔

یہ شام سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین کی کہانی ہے جو گذشتہ صدی کے اوائل میں فلسطین میں آنے والے برطانوی مینڈیٹ یافتہ حکام اور یہودیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی علامت بنے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ان کی شخصیت اور حالات زندگی ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہیں۔

عزالدین القسام سنہ 1882 میں شام کے قصبے جبلہ میں پیدا ہوئے۔ عزالدین نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد مولوی عبدالقادر القسام سے حاصل کی جو اس قصبے میں واقع منصوری مسجد کے پیش امام تھے۔

14سال کی عمر میں وہ الازہر مسجد (جو بعدازاں یونیورسٹی بنی) میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے قاہرہ چلے گئے، جہاں ان کی ملاقات اصلاح پسند تحریک کے رہنماؤں شیخ محمد عبدہ، رشید رضا و دیگر سے ہوئی اور اِن شخصیات نے القسام کو متاثر کیا۔

اس مسجد سے ملحق مدرسے میں لگ بھگ ایک دہائی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد عزالدین سنہ 1906 میں واپس جبلہ پہنچے اور ابراہیم بن ادھم مسجد میں امام اور مبلغ مقرر ہوئے۔ سنہ 1911 میں جب اطالوی فوج نے لیبیا پر حملہ کیا تو شیخ القسام المنصوری نے مسجد کے منبر پر چڑھ کر ’جہاد‘ کی دعوت دی۔

انھوں نے فوری طور پر درجنوں نوجوانوں کو طرابلس میں لڑنے کے لیے بھرتی کیا، جس کی قیادت شیخ عبدالقادر کیوان نامی نوجوان دمشقی عالم کر رہے تھے۔ شیخ عبدالقادر کیوان سنہ 1920 میں شام میں داخل ہونے پر فرانسیسی افواج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

فلسطین میں یہودی آبادکاروں کی رہائش گاہ کی فائل فوٹو

جب فرانس نے شام پر قبضہ کیا تو شیخ القسام نے فرانسیسیوں سے لڑنے کے لیے ایک چھوٹا مسلح گروپ تشکیل دیا اور اس گروپ کے ہمراہ خود بھی عمر البطار کے گروپ میں شامل ہو گئے، اس گروپ نے سنہ 1919 سے سنہ 1921 کے درمیان فرانسیسی افواج کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں۔

تاہم شام پر فرانسیسی مینڈیٹ کے نفاذ کے چند مہینوں بعد حکام نے اُن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے القسام سنہ 1921 میں بیروت کے راستے حیفہ فرار ہو گئے۔

حیفہ پہنچ کر عزالدین القسام استقلال مسجد کے اس حصے میں رہائش پذیر ہوئے جس میں اُن غریب کسانوں کو رکھا گیا تھا جو معاشی حالات کی وجہ سے اپنے گاؤں، دیہات سے بے گھر ہو گئے تھے۔ القسام ان کے درمیان سرگرم رہے اور اُن کو بنیادی تعلیم فراہم کرتے رہے۔

القسام نے حیفہ کے اسلامی سکول اور پھر وہاں کی مسلم یوتھ ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 1926 میں یہاں کی انجمن کے صدر بن گئے۔

القسام نے حیفہ کے البرج سکول اور الاستقلال مسجد میں درس و تدریس کا کام بھی کیا۔ تاہم سنہ 1928 میں وہ اخوان المسلمین کے تجربے سے متاثر ہو کر فلسطین میں ’ینگ مسلمز‘ نامی ایک گروپ کی بنیاد اور سربراہی کرتے ہوئے شرعی عدالت میں شامل ہوئے۔

یہ وہ وقت تھا جب فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری عروج پر تھی۔ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد سنہ 1931 میں 175,138 سے بڑھ کر سنہ 1935 میں 355,157 ہو چکی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب خطے میں مسلح گروہ نمودار ہوئے، جنھوں نے فلسطین میں برطانوی اور یہودی تنصیبات کے خلاف کارروائیاں کیں۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

،تصویر کا کیپشن

القسام کی قبر کو ماضی میں یہودی انتہا پسندوں کی جانب سے بار بار توڑ پھوڑ اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور 2014 میں اس پر سٹار آف ڈیوڈ بھی پینٹ کیا گیا تھا

ایسا ہی ایک گروہ ’الكف الأخضر‘ (گرین پام) تھا جس نے اکتوبر 1929 میں فرانسیسیوں کے خلاف اپنی انقلابی تحریک کے کچلے جانے کے بعد شام سے آنے والے مزاحمتی جنگجوؤں کی حمایت سے برطانوی اور یہودی اہداف کے خلاف کئی حملے کیے تھے۔

شیخ القسام نے اس گروپ کے تجربے سے فائدہ اٹھایا کیونکہ اس نے متعدد شہروں اور قصبوں میں سلیپر اور فعال سیل بنانے کے لیے اس کے گروہ کے کچھ اراکین سے مدد طلب کی تھی۔ اسی سلسلے میں بننے والی ایک نئی تنظیم کے نام پہلے ’جمعية مجاهدي سوريا‘ اور ’جمعية التسليح‘ تھے۔ بعد میں اسے ’الكف الأسود‘ (بلیک پام) کے نام سے جانا گیا۔

بلیک پام کے جنگجوؤں نے اپنا پہلا آپریشن 1931 کے موسم بہار میں کیا، جب انھوں نے حیفہ میں یجور روڈ پر یہودی افراد کو لے جانے والی ایک گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا۔ اس حملے میں تین یہودی ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

اس تنظیم کی حکمت عملی یہ تھی کہ یہودی اور برطانوی اہداف کے خلاف الگ الگ آپریشن کیا جائے۔ اسی سلسلے میں دوسرا آپریشن گرمیوں میں اور تیسرا اسی سال سردیوں کے آغاز میں ہوا۔

لیکن جنوری 1932 میں جب ایک جنگجو نہلال بستی (فلسطین میں یہودی مزدوروں کی پہلی بستی) پر فائرنگ کر رہے تھے، تو انھوں نے کیچڑ کی وجہ سے اپنے قدموں کے نشانات کو سڑک پر چھوڑ دیا، جس سے برطانوی افواج حملہ آوروں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئیں۔

ان حملہ آوروں کو بعدازاں ضلع ناصرت کے گاؤں صفوریہ سے گرفتار کیا گیا، گرفتار ہونے والوں کی قیادت خلیل العیسیٰ کر رہے تھے، جو خود بھی گرفتار ہوئے۔ خلیل القسام کے معاونین میں سے ایک تھے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان گرفتاریوں کے بعد اس تنظیم کے متعدد خفیہ ٹھکانوں کا پردہ فاش ہوا اور حکام نے اس تنظیم کے ارکان کو ختم کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے مہم شروع کی۔ لیکن تحقیقات کے دوران کوششوں کے باوجود القسام کا تنظیم سے کوئی لنک نہ جوڑا جا سکا۔

حکام کی ان کارروائیوں کے بعد القسام نے اگلے ڈھائی سال کے لیے اپنی عسکری کارروائیوں میں وقفہ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنے گروہ کی تنظیم سازی کر سکیں، گروہ کے باقی ماندہ افراد کی حفاظت یقینی بنا سکیں اور اس دوران مزید اسلحہ حاصل کر سکیں۔

سنہ 1935 کے آخر میں القسام نے استقلال مسجد میں ایک عوامی خطبے کے دوران برطانوی افواج کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا۔ القسام کی جانب سے ’استعماری قوتوں کے خلاف جہاد‘ کے مرحلے کے آغاز کا اعلان اس کے لیے درکار تمام ضروری تیاریوں کے مکمل نہ ہونے کے باوجود سامنے آیا۔ چند ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ فلسطین میں یہودیوں کی بڑھتی آبادکاری کے نتیجے میں ہوا۔

15 نومبر 1935 کو القسام اپنے 11 پیروکاروں کے ساتھ جنین اور نابلس کے شہروں کے درمیان واقع گاؤں یعبد کی طرف روانہ ہوئے جہاں حکومتی اداروں کے ساتھ لڑائی ہوئی جو تقریباً 6 گھنٹے تک جاری رہی۔

القسام اس جھڑپ میں اپنے گروپ کے تین جنگجوؤں کے ساتھ مارے گئے۔ ہلاک ہونے والے ان کے ساتھیوں میں یوسف عبداللہ الزباوی، عطیہ احمد المصری اور احمد سعید شامل تھے جبکہ نمر السعدی اور اسد المفلح اس جھڑپ میں زخمی ہوئے۔ دیگر جنگجو بشمول حسن ال بائر، احمد عبدالرحمن، عربی البداوی، اور محمد یوسف کو گرفتار کیا گیا جنھیں بعدازاں قید کی سزائیں سنائی گئیں ۔

اس جھڑپ میں مرنے والوں کی لاشوں کو جینن بھیجا گیا اور پھر حائفہ پہنچا دیا گیا تاکہ ان کے اہل خانہ انھیں وصول کر سکیں۔ 21 نومبر 1935 کو القسام سمیت تینوں جنگجوؤں کی تدفین عمل میں آئی۔

القسام کی موت کی خبر سے علاقے میں غصہ پھیلا گیا اور شہر بھر میں ہڑتال ہوئی۔

القسام کی قبر کو بعدازاں یہودی انتہا پسندوں کی جانب سے بار بار توڑ پھوڑ اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور 2014 میں اس پر سٹار آف ڈیوڈ بھی پینٹ کیا تھا۔

القسام نے اپنی کزن آمنہ نانوع سے شادی کی تھی جن سے ان کی تین بیٹیاں، خدیجہ، عائشہ اور میمنہ، تھیں۔ یہ سب جبلہ میں پیدا ہوئیں اور ان کی شادی فلسطین میں ہوئی، لیکن 1948 کے بعد یہ خاندان پناہ گزین ہوا اور اُردن، شام اور لبنان کے علاقوں میں تقسیم ہو گیا۔

ان کے اکلوتے بیٹے محمد نے اپنی تعلیم یروشلم میں مکمل کی۔ نکبہ کے بعد، وہ اپنی والدہ کے ساتھ شام کے شہر جبلہ واپس آئے اور وہاں وہ اسلامی تعلیم کے استاد، مبلغ اور المنصوری مسجد کے امام بنے۔ یہ وہی مسجد تھی جہاں اُن کے والد تبلیغ کیا کرتے تھے۔ محمد کی وفات سنہ 1991 میں ہوئی۔

BBCUrdu.com بشکریہ