جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

کورونا وبا کا کچرا، جنگلی حیات کا قاتل

ایمسٹر ڈیم، ہالینڈ: کرہ ارض گزشتہ ڈیڑھ برس سے کووڈ 19 کے چنگل میں ہے۔ انسانوں نے اپنے تحفظ بالخصوص ہسپتال کے حفاظتی لباس ( پی پی ای) کو جس طرح ماحول میں ڈالنا شروع کیا ہے اس سے اپنی معصوم اور بے زبان جانوروں کی جان پر بن آئی ہے۔

ساحل ہو یا خشکی ڈسپوزیبل ماسک ہر جگہ موجود ہیں اور وہ ختم ہونے کی بجائے جانوروں میں موت بانٹ رہے ہیں۔ اب سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ کووڈ 19 سے وابستہ کوڑا کرکٹ جانوروں کے اصل گھروں اور مسکن میں داخل ہوچکا ہے۔ ان میں ربڑ کے دستانے، فیس ماسک اورربڑ کی ڈوریں اور پولی پروپائلین سے بنے لباس بھی شامل ہیں۔

ہالینڈ کی لائیڈن یونیورسٹی سے وابستہ حیاتیات داں نے سوشل میڈیا پر جب ایک دستانے میں پھنسی مچھلی کی تصاویر دیکھیں تو وہ ہل کر رہ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کورونا کچرے کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کیا۔ ان کے مطابق ماسک اور دستانے کسی جال کی طرح جانوروں کے پھنسنے اور الجھنے کی وجہ بن چکے ہیں۔ پھر ان کے ٹکڑے سانس کی نالی میں پھنس رہے یا پیٹ میں اترکر انہیں بیمار کرکے ہلاک کررہے ہیں۔

لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں، پوری دنیا میں فی منٹ 30 لاکھ فیس ماسک ماحول میں پھینکے جارہے ہیں جو ایک مرتبہ استعمال ہوتےہیں۔ اب یہ حال ہے مٹی، پانی، پہاڑ، باغ، کھیت، سمندر اور خشکی پر ڈیڑھ ارب ماسک اور دستانوں کا کوڑا بکھر کر رہ گیا ہے۔ جب یہ معصوم جان داروں تک پہنچتے ہیں تو پلاسٹک سے ان کی موت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

سائنسدانوں نے یہ بھی دیکھا کہ پرندے اس کچرے سے گھونسلہ بنارہے ہیں۔ ایک امریکی چڑیا کو فیس ماسک میں پھنسا ہوا دیکھا گیا ہے۔ سمندری پگلا کئی ہفتے تک اپنی ٹانگ میں پھنسا ربڑ بینڈ نہ نکال سکا جبکہ کئی بڑے پرندے اپنے ناخنوں سے یہ کوڑا ہٹانے سے قاصر رہے ہیں۔

اسی طرح، چوہے، چمگادڑ، کیکڑے اور الغرض ہر طرح کے پرندے کووڈ کچرے سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کھا کر اپ تک پینگوئن، کتوں اور دیگر جان داروں کی لاشیں مل چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم پہلے سے ہی جو پلاسٹک زمین میں دھکیل رہے ہیں وہ مائیکرو پلاسٹک میں تبدیل ہوکر جان داروں سمیت خود ہمارے جسم کا حصہ بن رہا ہے اور اپنے نقصان پھیلارہا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ بہتر ہوگا کہ بار بار دھوکر استعمال کیے جانے والے ماسک کو عام کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو انہیں پھینکنے سے قبل ان کی ڈوریاں کاٹ دی جائیں۔

You might also like

Comments are closed.