کورونا وائرس کی نئی قسم: جنوبی افریقہ سے ابھرنے والی قسم پر سائنسدانوں کو شدید تشویش، کئی ممالک کی سفری پابندیاں
- جیمز گیلاگر
- صحت اور سائنس کے نامہ نگار
کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف تمام کوششیں ناکافی ثابت ہو سکتی ہیں اور اگر اس نئی قسم سے متعلق سائنسدانوں کے خدشات درست ہیں تو دنیا بھر میں کورونا کی ایک نئی لہر آسکتی ہے۔
کورونا کی اس نئی قسم کی دریافت کی اہم بات یہ ہے کہ اس وائرس کے جینیاتی ڈھانچے میں بہت زیادہ تبدیلیاں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے ایک سائنسدان نے اس نئی قسم کے کورونا وائرس کو ہولناک قرار دیا تو ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ یہ اب تک سامنے آنے والے تمام وائرس سے خطرناک ہے۔
ایسے میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ وائرس کی یہ نئی قسم کتنی تیز رفتار سے پھیل سکتی ہے اور اس میں کورونا کی ویکسین کے خلاف کتنی مدافعت موجود ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کورونا کی اس نئی قسم کا توڑ کیا ہے؟
اس نئی قسم کے بارے میں تمام تر خدشات کے باوجود ان سوالوں کے سب جواب اب تک سائنسدانوں کے پاس بھی نہیں۔
وائرس کی نئی قسم کس حد تک پھیل چکی ہے؟
اب تک اس نئی قسم (B.1.1.529) کے درجنوں مصدقہ متاثرین سامنے آچکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جنوبی افریقہ کے صوبے گوٹنگ میں سامنے آئے لیکن چند کیسز بیرون ملک بھی موجود ہیں۔
افریقی ملک بوٹسوانا میں چار کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ ایک کیس ہانگ کانگ میں بھی دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ مریض جنوبی افریقہ سے سفر کر رہا تھا۔
اسی وجہ سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ قسم اندازے سے زیادہ پھیل چکی ہے اور جنوبی افریقہ کے زیادہ تر صوبوں میں موجود ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کی چھ افریقی ممالک پر سفری پابندی
اس نئی قسم کے سامنے آنے کے بعد برطانیہ کی جانب سے چھ افریقی ممالک پر نئی سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان میں جنوبی افریقہ، نمیبیا، زمبابوے، بوٹسوانا، لیسوتھو اور اسواتینی شامل ہیں۔
برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی سے منسلک جینی ہیرس کا کہنا ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک سامنے آنے والے تمام ویریئنٹس کے مقابلے زیادہ خطرناک لگتی ہے۔‘
ان کے مطابق فوری طور پر نئی ہنگامی ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور کتنا مہلک ہے۔ ’یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کورونا کی ویکیسن کے خلاف اس کی مدافعت کتنی موثر ہے۔‘
سیکریٹری ہیلتھ ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں کو وائرس کی نئی قسم پر گہری تشویش ہے۔ ’یہ زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے اور ہماری موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کم کارآمد ہوسکتی ہیں۔‘
اہم سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں جہاں یہ نئی قسم سامنے آئی ہے وہاں اب تک صرف چوبیس فیصد آبادی کو ہی ویکیسن لگائی جا سکی ہے تو ایسے میں یہ نیا وائرس یورپ، جہاں ویکیسن لگوانے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، کو کتنا متاثر کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ نئی قسم ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یورپ میں کورونا کی چوتھی لہر کے خطرے کے پیش نظر ایک بار پھر نئی پابندیوں پر غور ہو رہا ہے۔
کورونا کی نئی قسم کیا ہے؟
اب تک کورونا وائرس کی مختلف اقسام سامنے آچکی ہیں جنہیں عالمی ادارہ صحت ایلفا اور ڈیلٹا ویریئنٹ جیسے نام دے چکا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ کورونا کی اس نئی قسم کو بھی ایک نام دیا جائے گا لیکن اس وقت اسے ایک نمبر دیا گیا ہے جو بی پوائنٹ ون پوائنٹ ون فائیو ٹو نائن ہے۔
اس وائرس کے بارے میں اب تک یہ جانا جا سکا ہے کہ اس کی جینیاتی ساخت میں بہت زیادہ تبدیلیاں موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ کے وبائی امراض کے سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا کہتے ہیں کہ کورونا کا یہ ویریئنٹ اب تک سامنے آنے والی تمام اقسام سے مختلف ہے کیونکہ اس کی ساخت میں غیر معمولی حد تک تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
’کورونا کی اس قسم نے ہمیں حیران کر دیا ہے‘
پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا کے مطابق کورونا کے اس نئے ویریئنٹ نے انھیں حیران کر دیا ہے کیوںکہ اس میں ‘ہماری توقعات سے زیادہ تبدیلی آ چکی ہے۔‘
انھوں نے ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ نئے ویریئنٹ میں مجموعی طور پر 50 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جبکہ اس میں موجود مخصوص سپائک پروٹین، جس کو ویکسین نشانہ بناتی ہے، اس میں تیس جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں۔
’اس وائرس کی قسم کے معائنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس کا وہ حصہ جو سب سے پہلے انسانی جسم پر اثرانداز ہوتا ہے اس کی سطح پر بھی 10 جینیاتی تبدیلیاں ہیں۔’
اہم بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کورونا کی نئی لہر کی وجہ بننے والے ڈیلٹا ویرئینٹ میں ایسی صرف دو جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی تھیں۔
وائرس میں جینیاتی تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟
سائنسدانوں کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ وائرس میں جینیاتی تبدیلی ہمیشہ خطرناک ہی ثابت ہو۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس تبدیلی کے بعد وائرس کیسے بدلتا ہے۔
اصل تشویش یہ ہے کہ وائرس کی نئی قسم اس پہلے وائرس سے بہت حد تک بدل چکی ہے جو چین کے شہر ووہان میں سب سے پہلے کورونا کی وجہ بنا تھا۔ چونکہ کورونا کی ویکیسن پہلے وائرس کے معائنے کے بعد بنائی گئی تھی اس لیے نئی قسم پر اس کا اثر کم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ایسا نہیں کہ اس نئے وائرس کی تمام تبدیلیاں بالکل حیران کن ہیں بلکہ کئی ایسی ساخت کی تبدیلیاں بھی ہیں جو اس سے پہلے کی وائرس کی اقسام میں بھی پائی گئیں اور ان کی وجہ سے اس کے بارے میں جاننے میں مدد مل رہی ہے۔
ان میں سے ایک تبدیلی ایسی بھی ہے جو جسم میں موجود دفاعی خلیوں کے لیے وائرس کی پہچان مشکل بنا دیتی ہے جس سے کورونا کی ویکیسن کم موثر ہو جاتی ہے۔
اس سے پہلے سامنے آنے والی وائرس کی اقسام میں سے کچھ ایسی بھی تھیں جن کی جینیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے خدشہ تھا کہ یہ خطرناک ثابت ہوں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کورونا کے ’بیٹا ویریئنٹ‘ کے بارے میں سال کے آغاز میں کہا جارہا تھا کہ یہ مہلک ثابت ہوگا کیوںکہ یہ جسم کے دفاعی نظام سے بچنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس کے مقابلے میں ڈیلٹا ویریئنٹ زیادہ مہلک ثابت ہوا جو زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
Comments are closed.