بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کنوارپن بحالی کا آپریشن: ’مجھے لگا یہی ایک طریقہ ہے جس سے میں پہلے کی طرح ہو سکتی ہوں‘

ہائمنو پلاسٹی: برطانیہ میں کنوار پن بحال کرنے والے آپریشن اور ٹیسٹوں پر پابندی کا عندیہ

شادی

،تصویر کا ذریعہRebeca Heldon BBC Three

برطانیہ میں رہائش پذیر علینہ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ انھیں بچپن میں ریپ کیا گیا تھا جس کے بعد اُن پر کئی سالوں تک خاندان کا دباؤ رہا کہ وہ آپریشن (ہائمنو پلاسٹی) کروا کر پردۂ بکارت کا بذریعہ آپریشن مرمت کروا لیں۔

ہائمنو پلاسٹی ایک عمل جراحی یا آپریشن ہے جس کے ذریعے خواتین کے ہائمن یا پردۂ بِکارت (کنوارپن کی جھلی) کو پھر سے جوڑا جاتا ہے۔ بعض معاشروں کے اندر ہائمن یا پردہ بکارت کو کنوار پن کی علامت سمجھا جاتا ہے، تاہم اس آپریشن کو نام نہاد ’غیرت‘ سے جوڑا جاتا ہے۔

علینہ کہتی ہیں ’مجھے لگا کہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ ہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے میں پھر سے پہلے کی طرح ہو سکتی ہوں۔‘

’اس معاملے میں میں نے خود کو بہت تنہا پایا۔ مجھے لگا کہ ایسا نہ کرنا جرم ہو گا۔‘

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علینہ پر گھر والوں کا دباؤ بڑھتا رہا جس سے بچنے کے لیے انھوں نے ایک ایسے شخص سے شادی کر لی جسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ علینہ کی ہائمن یا پردہ بکارت سالم ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ انھوں نے یہ آپریشن نہیں کروایا۔

وہ کہتی ہیں ’میں جانتی تھی کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا اور میں جانتی تھی کہ میرے والدین مجھ سے جو کچھ کہتے تھے وہ دباؤ اور نام نہاد عزت کی وجہ سے کہتے تھے۔‘

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کنوارپن جانچنے کا رواج کم سے کم 20 ملکوں میں موجود ہے۔ اس کے لیے لڑکیوں کے پردہ بکارت کو باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے کہ وہ سلامت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہائمن ایک باریک جھلی ہے جو وجائنا کے منھ پر جزوی طور پر موجود ہوتی ہے۔

لڑکیوں میں اس جھلی کے زائل ہونے کی جنسی مباشرت کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً کھیل کود اور ٹیمپون (حیض کی بتی) کا استعمال۔

۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بعض رجعت پسند معاشروں میں پردہ بکارت کو کنوارپن سے جوڑا جاتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ شادی کی پہلی رات سیکس کرنے پر پردہ بکارت پھٹنا اور اس کے نتیجے میں خون بہنا چاہیے جو اس بات کی نشانی ہے کہ لڑکی کنواری ہے۔

تاہم برطانوی حکومت نے گذشتہ سال کے اختتام پر وعدہ کیا تھا کہ وہ ہائمنو پلاسٹی پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کرے گی۔

اب برطانیہ میں ہیلتھ اینڈ کیئر کے مسودۂ قانون (بل) میں ترامیم متعارف کروائی ہیں جن سے ’ہائمنو پلاسٹی میں مدد دینے اور اسے جاری رکھنے‘ کو جرم قرار دیا جائے گا۔ ان ترامیم کے تحت اس مقصد کے لیے کسی لڑکی یا عورت کو بیرون ملک لے جانا بھی جرم ہو گا۔

اس مسودۂ قانون میں ورجینٹی ٹیسٹنگ یا کنوارپن جانچنے کو بھی ’ناقابل دفاع‘ یا بلاجواز قرار دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ورجینٹی ٹیسٹنگ اور ہائمنو پلاسٹی کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق ہے۔

پابندی لگ جانے کے بعد یہ عمل اور کنوارپن کا ٹیسٹ جرم قرار پائیں گے۔ ہائمنوپلاسٹی پر تین ہزار پاونڈ تک خرچ آتا ہے۔

کنوارہ پن

،تصویر کا ذریعہThinkstock

ڈیانا نمّی ’ایرانین اینڈ کردِش وویمنز رائٹس‘ آرگنائزیشن کی سربراہ ہیں اور پابندی کی حق میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہر وہ عورت جو یہ آپریشن کرواتی ہے اسے ایسا حالت مجبوری میں کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ کنواری نظر آئے اور کئی بار تو خاندان والوں کی مرضی سے جبری شادی کروانے کے لیے یہ سب کروایا جاتا ہے۔‘

’ہائمنو پلاسٹی کے بعد بھی ضروری نہیں کہ پہلی مرتبہ جنسی تعلق قائم ہونے پر خون کا اخراج ہو، جس سے لڑکی کو غیرت کے نام پر زیادتی، حتیٰ کہ قتل کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔‘

پابندی کے حق میں ایک اور سرکردہ خاتون صالحہ طاہری کا کہنا ہے کہ ان رواجوں سے چھٹکارا پانے کے لیے تعلیم اور وقت درکار ہے۔

ان کے ساتھ کام کرنے والی ایک کردش عورت گلالی سیمیلی، جو ایران میں پلی بڑھی تھی، نے بتایا کہ جب ان کی اپنی شادی کے موقع پر ان سے کنوارپن کی سند پیش کرنے کو کہا گیا تو باوجود کنواری ہونے کے انھیں بہت شرم محسوس ہوئی۔

گلالی سنہ 2017 میں برطانیہ آئیں اور جب انھیں پتا چلا کہ ان کی اپنی بیٹی کنواری نہیں تو انھیں شدید فکر لاحق ہو گئی اور انھوں نے آپریشن کروانے کے بارے میں سوچا۔ مگر مشرق وسطیٰ کی خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان میں شعور پیدا ہو چکا تھا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی پر اس ناانصافی کو مسلط نہیں کریں گی۔

زیادتی پر زیادتی

رفاحی تنظیم ’کرما نِروانا‘ سے وابستہ اندرا ورما کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو یہ تسلیم کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے کہ وہ پردۂ بکارت کی تشکیل نو کروانے کے لیے آپریشن کروانا چاہتی ہیں۔

زیادہ تر ایسے آپریشن کلینک میں کیے جاتے ہیں مگر ایسے شواہد موجود ہیں کہ بعض آپریشن گھر پر بھی کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘متاثرین بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر مریض کے گھر آتے ہیں اور بہت زیادہ فیس لیتے ہیں۔ اس طرح متاثرہ لڑکی کے انکار کرنے یا بھاگ جانے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔’

ان کے بقول یہ ایک خفیہ کاروبار ہے جو تیزی سے پنپ رہا ہے۔

مزید پڑھیے

ڈاکٹر بھار لندن کے ایک پلاسٹک سرجن ہیں اور وہ اس پابندی کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی ورجنینٹی ٹیسٹ نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ اس کے حق میں ہیں، البتہ وہ ہائمنو پلاسٹی کرتے ہیں۔ اُن کے بقول اس پر اوسطاً تین سے چار ہزار پاؤنڈز خرچ آتا ہے اور تقریباً 45 منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔

ان کے خیال میں اس عمل پر پابندی سے لڑکیوں اور عورتوں کے لیے مسائل بڑھ جائیں گے، اس لیے پابندی کی بجائے اس کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں۔

شادی

وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ میڈیکل پروسیجر جیسی کسی چیز پر پابندی لگاتے ہیں تو یہ کام خفیہ طور پر ہونے لگتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس بہت سے لڑکیوں یا خواتین پر خاندان یا سماج کا دباؤ ہوتا ہے مگر ان سے زبردستی نہیں کی جاتی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کا اپنا معاشرہ انھیں قبول کر لے اور اس کے لیے وہ اپنے معاشرے کے بنیادی اصولوں پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جہاں انھیں محسوس ہوا کہ مریض اپنی مرضی سے ہائمنوپلاسٹی نہیں کروانا چاہتی اور اس پر خاندان کا دباؤ ہے تو انھیں نے آپریشن کرنے سے انکار کر دیا۔

برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مقامی برادریوں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور ’کنوارپن اور خواتین کی قدر و قیمت سے متعلق غلط تصورات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں رہے گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.