کم جونگ ان کے شمالی کوریا میں ’میزائلوں کی آزمائش کے بعد اب استعمال کی تیاری‘
- مصنف, ژاں میکنزی
- عہدہ, نامہ نگار، سیول
شمالی کوریا نے 2022 میں کئی ریکارڈ توڑے۔ اس نے ایک سال میں سب سے زیادہ میزائل داغے۔ درحقیقت شمالی کوریا کی تاریخ کے ایک چوتھائی میزائل 2022 میں ہی لانچ کیے گئے۔
یہ وہ سال تھا جب کم جونگ ان نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں والا ملک بن گیا ہے اور یہ ہتھیار ان کے پاس ہمیشہ رہیں گے۔
اس نے جزیرہ نما کورین علاقوں میں 2017 کے بعد سے سب سے زیادہ کشیدگی کو جنم دیا۔ یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو ’فائر اینڈ فیوری‘ (آگ اور غصے) کی دھمکی دی۔
تو اب آگے کیا ہو گا؟
کیا شمالی کوریا سے مذاکرات ہوں گے؟
ان اہداف کے ہوتے ہوئے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کہ شمالی کوریا کے رہنما رواں سال امریکہ سے بات چیت کی میز پر واپس آئیں گے۔ جوہری ہتھیاروں کو روکنے کے لیے مذاکرات کا آخری راؤنڈ 2019 میں ختم ہوا تھا اور اس کے بعد سے مسٹر کِم نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کرنے کے بعد اس حوالے سے سوچیں گے۔ وہ یہ ثابت کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ اور جنوبی کوریا میں تباہی مچا سکتے ہیں اور اس پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد وہ مذاکرات کی میز پر واپس آ کر اپنے اصولوں پر مذاکرات کریں گے۔
تاہم گذشتہ سال شمالی کوریا، چین اور روس کے مزید قریب گیا۔ ریچل منیونگ لی گذشتہ 20 برس سے امریکی حکومت کے لیے شمالی کوریا کی ماہر کے طور پر کام کر رہی ہیں اور اب اوپن نیوکلیئر نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ شمالی کوریا ممکنہ طور پر اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لا رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’شمالی کوریا اب امریکہ کو اپنی سالمیت اور سکیورٹی کے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ جوہری معاملات پر مستقبل کے مذاکرات میں یہی پہلو اثر انداز ہوگا۔‘
جوہری ہتھیاروں کی پیداوار
سال 2022 میں شمالی کوریا کے ہتھیاروں میں بڑی پیشرفت ہوئی۔ سال کے آغاز میں اس نے کم رینج کے میزائلوں کی آزمائش کی جنھیں جنوبی کوریا کو نشانہ بنانے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بعد میں درمیانی رینج کے میزائلوں کی آزمائش کی گئی جن کا مقصد جاپان کو ہدف بنانا ہے۔
سال کے آخر میں شمالی کوریا نے اپنے اب تک کے سب سے طاقتور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی کامیاب آزمائش کر لی جس کا نام ہاسنگ 17 ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امریکہ میں کسی بھی مقام پر داغا جا سکتا ہے۔
مسٹر کم نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو بھی معمول کا حصہ بنا دیا۔ ستمبر میں اس اعلان کے بعد کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیار رکھتا ہے، انھوں نے بتایا کہ یہ ہتھیار صرف اس کام کے لیے نہیں بنائے گئے کہ اس سے جنگ روکی جائے گی بلکہ انھیں جارحانہ انداز میں استعمال کر کے جنگ جیتی بھی جا سکتی ہے۔
جیسے ہی سال اپنے اختتام کے قریب آنے لگا، انھوں نے حکمراں ورکرز پارٹی کے ارکان کو حکم دیا کہ 2023 کے لیے اہداف بنائے جائیں۔
اس میں سرِفہرست جوہری ہتھیاروں کی پیداوار میں ’بے پناہ اضافہ‘ کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چھوٹے اور ٹیکٹیکل (فوجی کارروائی کے لیے) نیوکلیئر ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر پیداوار کی جائے گی تاکہ جنوبی کوریا کے خلاف جنگ لڑنے کی صلاحیت حاصل کی جائے۔
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں جوہری ہتھیاروں کی ماہر انکیت پانڈے نے کہا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ پیشرفت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بنانے کے لیے شمالی کوریا کو سب سے پہلے چھوٹا جوہری بم بنانا ہو گا جسے چھوٹے میزائل پر لوڈ کیا جاسکے گا۔ دنیا اس کے شواہد دیکھنے کی منتظر ہے کہ آیا پیانگ یانگ کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
انٹیلیجنس کمیونٹی نے 2022 میں اسی بات کا انتظار کیا کہ ایسی کسی ڈیوائس کی آزمائش کی جائے گی تاہم ایسا کوئی ٹیسٹ سامنے نہیں آیا مگر ہو سکتا ہے سال 2023 اسی کام کے لیے مختص ہو۔
مسٹر کِم کی نئے سال کی فہرست پر جاسوسی کی سیٹلائٹ بھی ہو گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ موسم بہار تک اسے لانچ کر دیں گے۔ وہ یقیناً ایسا بین الرعظمی بیلسٹک میزائل حاصل کرنا چاہتے ہیں جسے امریکہ پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے یعنی نئے ماڈل سے حریف کو ردعمل دینے کے لیے اور بھی کم وقت ملے۔
ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ 2023 کا آغاز 2022 کی طرح ہو گا جس میں پیانگ یانگ اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے جواب میں جارحانہ انداز میں مزید آزمائشیں کرتا رہے گا اور اپنے جوہری ہتھیاروں کو وسعت دے گا۔
نئے سال کی شروعات کے تین گھنٹے بعد ہی شمالی کوریا نے 2023 کا پہلا میزائل ٹیسٹ کر لیا تھا۔
مسٹر پانڈے نے کہا ہے کہ ’نئے سال میں کئی میزائل لانچ شاید ٹیسٹ نہ ہوں بلکہ فوجی مشقوں کا حصہ ہوں کیونکہ شمالی کوریا ممکنہ جنگ میں میزائلوں کے استعمال کی تیاری کر رہا ہے۔‘
کوریا کے جزیرہ نما علاقے میں تناؤ
دریں اثنا کوریا کے جزیرے نما علاقے میں کشیدگی کا ماحول بڑھ رہا ہے۔ شمالی کوریا کے کسی بھی ’جارحانہ اقدام‘ پر جنوبی کوریا اور بعض اوقات امریکہ ردعمل دیتے ہیں۔
اس کا آغاز مئی 2022 میں ہوا جب جنوبی کوریا کے نئے صدر نے منصب سنبھالا اور شمالی کوریا کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کا وعدہ کیا۔ صدر یون سوک یول اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فوج کی مضبوطی سے ہی شمالی کوریا کو بہترین جواب دیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں دوبارہ شروع کیں جن کے جواب میں شمالی کوریا نے احتجاجاً مزید میزائل لانچ کیے۔ اس معاملے نے فریقین کی جانب سے فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں جنگی طیارے سرحدوں کے پاس اڑان بھرتے نظر آتے تھے اور سمندر کی طرف گولہ بارود فائر کیا جاتا تھا۔
گذشتہ ہفتے صورتحال مزید کیشدہ ہوئی جب شمالی کوریا نے اچانک جنوبی کوریا کی فضائی حدود میں پانچ ڈرون اڑائے تھے۔ جنوبی کوریا نے فوراً انھیں مار گرایا تھا مگر اس سے عام شہریوں میں یہ تشویش بڑھ گئی کہ ملکی دفاع میں کمزوریاں موجود ہیں۔ عام طور پر شمالی کوریا کی فوجی کارروائیوں سے جنوبی کوریا کے شہری زیادہ خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں۔
جنوبی کوریا کے صدر نے وعدہ کیا کہ وہ ہر جارحانہ اقدام پر شمالی کوریا کو جواب اور سزا دیں گے۔
کوریا ریسک گروپ کے سی ای او چاد و کیرل کی پیشگوئی ہے کہ 2023 میں دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جھڑپ ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں اموات ہوں گی۔ وہ شمالی کوریا کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی انیلسس سروس کے سربراہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شمال یا جنوب کا ردعمل اس نہج پر پہنچ سکتا ہے جس میں اصل فائر کا تبادلہ ہو، جان بوجھ کر یا نہ چاہتے ہوئے۔‘
یعنی ایک غلطی پوری صورتحال پر بھاری پڑ سکتی ہے۔
شمالی کوریا کی اندرونی صورتحال
مگر ایک سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ سال 2023 شمالی کوریا کے لوگوں کو لیے کیسا ہو گا؟
انھیں کووڈ کی وجہ سے تین برس تک سرحدی بندش کا سامنا رہا ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے تجارتی سرگرمیاں بھی معطل ہوئی تھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس بندش سے ملک میں ادویات اور خوراک کی شدید قلت ہوئی ہے۔
گذشتہ سال مسٹر کم نے حیرت انگیز طور پر ’خوراک کے بحران‘ کو تسلیم کیا تھا، مسائل سے متعلق یہ وہ اعتراف ہے جو عموماً ان کی جانب سے نہیں کیا جاتا۔
پھر مئی 2022 میں شمالی کوریا نے ملک میں عالمی وبا کے پھیلاؤ کا اعتراف کیا تاہم اس نے کچھ ماہ بعد اسے شکست دینے کا دعویٰ کیا۔
تو کیا 2023 میں شمالی کوریا چین کے ساتھ اپنی سرحدیں کھولے گا یعنی لوگوں اور سامان کو ملک میں داخل ہونے دے گا؟
چین میں معاشی سرگرمیاں بحال ہونے سے کچھ امید بڑھی ہے۔ شمالی کوریا نے سرحد کے پاس لوگوں کو ویکسین دے کر اس کی تیاری بھی شروع کی مگر اس کے صحت عامہ کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مِس لی کو اس حوالے سے تشویش ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ ایمرجنسی حالات ہیں، جن میں معاشی صورتحال برباد ہونے کے قریب ہے ’مگر اس حوالے سے امکان کم ہیں کہ شمالی کوریا پوری طرح سے اپنی سرحدیں کھولے گا، جب تک عالمی سطح پر کووڈ کے خاتمے کا اعتراف نہیں کیا جاتا، خاص کر ہمسایہ ملک چین کی جانب سے۔‘
اس حوالے سے بھی پیشرفت پر غور کیا جا رہا ہے کہ مسٹر کِم کے بعد کون شمالی کوریا کی قیادت کرے گا۔ اس حوالے سے کسی منصوبے کا علم تو نہیں مگر گذشتہ سال کم جونگ اپنی بیٹی کم چو اے کو منظر عام پر لائے تھے۔
اب تک تین فوجی مقامات پر ان کی تصاویر کھینچی گئی ہیں جبکہ نئے سال کے پہلے روز بھی کچھ تصاویر سامنے آئی تھیں جنھوں نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
شمالی کوریا کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا مشکل ہوتا ہے مگر 2023 ایک مزید غیر متوقع اور عدم استحکام والا سال ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.