’کشتی روکنے پر میری بچی کی موت ہوئی‘ جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش سے انڈونیشیا جانے والے روہنگیا مسلم
،تصویر کا ذریعہHARYO WIRAWAN / BBC
یاسمین کی بیٹی کشتی پر فوت ہو گئی تھی
- مصنف, حنا سموسر، استوڈیسٹرا اجینگرسٹری
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
جب یاسمین فطوم اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ کشتی میں انڈونیشیا کی طرف سفر کر رہی تھیں تو انھیں یہ امید تھی کہ جس ملک میں وہ جانے لگی ہیں وہاں ان کی زندگی بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے خستہ حال اور پُرتشدد ماحول سے بہتر ہو گی۔
کاکس بازار میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کے کیمپوں میں سے ایک موجود ہے جہاں تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ 25 سال کی یاسمین اور ان کے ساتھ کشتی پر موجود 250 روہنگیا پناہ گزین کے وہ انڈونیشیا کے صوبہ آچے کے ساحل پر پہنچتے، ان کے بہتر اور پُرسکون زندگی کے خواب ایک بھیانک حقیقت میں بدل گئے۔
ساحل پر مقامی لوگ برہمی سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے نزدیک پناہ گزین مقامی وسائل پر ایک بوجھ ہیں۔ انھوں نے کشتی کا راستہ روک کر اسے دو مرتبہ سمند کی طرف گھسیٹا۔
بی بی سی نے اس واقعے کی ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں ایک مقامی شخص چیخ کر پناہ گزین کو کہہ رہا ہے ’آپ یہاں نہیں اتر سکتے! ہمیں آپ کو مارنے پر مجبور نہ کریں!‘ جبکہ بچوں اور عورتوں کو مدد مانگتے سنے جاسکتا ہے۔
یاسمین نے اپنے آبدیدہ ہو کر بی بی سی کو بتایا ’جب میں پہلی بار انڈونیشیا آئی تھی تو میرے دو بچے تھے۔ لیکن جب انھوں نے کشتی کو پیچھے دھکیلا تو میری ایک بچی فوت ہو گئی کیونکہ وہ بیمار تھی اور ہمارے پاس خوراک نہیں تھی۔ ہمیں اس کی لاش سمندر برد کرنا پڑی۔‘
جب کئی دن کی غیر یقینی کے بعد لوگوں کو کشتی سے اترنے کی اجازت ملی تو وہ رو پڑے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے درد اور دکھ بھرے سفر کا اختتام ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ غمگین بھی تھے کیونکہ بیماری اور خوراک کے نہ ہونے کی وجہ سے تین مزید بچے کشتی پر فوت ہو گئے تھے۔
یاسمین ان 1087 روہنگیا پناہ گزینوں میں سے ہیں جو نومبر میں آچے پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت انڈونیشیا کے اس مشرقی صوبے میں تقریباً 1200 روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں۔
اکثریتی بدھ مت ملک میانمار میں روہنگیا مسلمان ایک اقلیت ہیں اور ان کے ساتھ ریاستی سطح پر امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ 2017 میں ان کے خلاف فوج نے عسکری کارووائی شروع کی جسے اقوام متحدہ نے ممکنہ نسل کشی کہا۔ اس دوران بہت سے روہنگیا مسلمانوں نے پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رُخ کیا۔
،تصویر کا ذریعہAMANDA JUFRIAN / AFP
ساحل سے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر روہنگیا پناہ گزین واپس کشتی میں سوار ہوتے ہوئے
یاسمین اور ان کا بیٹا اب ایک عارضی پناہ گاہ میں رہتے ہیں جو پہلے ایک امیگریشن دفتر تھا۔
مقامی لوگ ان کی موجودگی کا اب بھی خیر مقدم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر شادی شدہ رونگیا مرد اور خواتین کا ایک ہی کیمپ میں رہنا ان کے قدامت پسند اسلامی روایات کی خلاف ورزی ہے۔ وہ روہنگیا پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے کیمپ کو صاف ستھرا نہیں رکھتے۔
ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ پناہ گزین ملائیشیا جانے کے لیے انڈونیشیا کو بطور گزرگاہ استعمال کرتے ہیں۔
48 سال کے مقامی سُریانی کہتے ہیں ’وہ نہ شکرے ہیں، ہم نے رحم کر کے انھیں رکھا اور جواب میں وہ ہم پر تھوک کر (پناہ گاہوں) سے بھاگ گئے۔‘
غیر قانونی ملازمت کے لیے درجنوں روہنگیا نے انساینی سمگلرز کو بڑی رقم ادا کی تاکہ وہ انھیں بنگلہ دیش سے انڈونیشیا اور پھر وہاں سے ملائیشیا لے جائیں۔
19 نومبر کو آچے میں پولیس نے غیرقانونی طور پر 36 روہنگیا افراد کو صوبے سے باہر لے جانے کے الزام میں ایک ٹرک ڈرائیور کو گرفتار کیا۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی دو کشتیاں بنگلہ دیش سے آچے آئی تھیں اور ان کے سفر کے اگلے مرحلے میں انھوں نے ٹرکوں پر سفر کر کے دوسرے ملک منتقل ہونا تھا۔
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ان کے ملک میں اچھی نیت سے ان لوگوں کو پناہ دی گئی لیکن انسانی سمگلرز کے نیٹ ورک نے اس کا غلط فائدہ اٹھایا۔
،تصویر کا ذریعہZIKRI MAULANA / AFP
تقریباً 500 روہنگیا پناہ گزین اس عارضی پناہ گاہ میں رہتے ہیں
آچے میں آنے والی کشتیوں میں اضافہ
2015 سے درجنوں کشتیاں آچے کے ساحل پر پہنچی ہیں لیکن سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ 2021 میں میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے اس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اور حالیہ وقتوں میں آنے والی تمام کشتیاں بنگلہ دیش سے آئی ہیں۔
زیادہ تر روہنگیا اکتوبر اور مئی کے مہینوں کے درمیان کشتی کا سفر کرتے ہیں کیونکہ اس وقت ہوائیں تیز ہوتی ہیں اور حد سے زیادہ بھری کشتیاں تیز رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ لیکن جتنی کشتیاں نومبر کے ابتدا میں آئیں اتنی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید کشتیاں آچے کے ساحل پر پہنچیں گی۔
انڈونیشیا میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کی نمائندہ این میمن نے بی بی سی کو بتایا کہ کاکس بازار میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال مزید روہنگیا افراد کو فرار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔
این میمن نے کہتی ہیں کہ ’وہ خوفزدہ ہیں۔ اسی وجہ سے ہم اضافہ دیکھ رہے ہیں۔‘
وزارت خارجہ کے ترجمان لالو محمد اقبال کے مطابق، انڈونیشیا روہنگیا کو ’صرف انسانی بنیادوں پر‘ قبول کرتا ہے، چاہے وہ ایسا کرنے کا پابند نہ ہو۔
انڈونیشیا نے اقوام متحدہ کے 1951 کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہوئے۔
انھوں نے میانمار میں مسئلے کی جڑ کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ’یہ پناہ گاہیں قلیل مدتی ہیں مستقل حل نہیں ہیں۔‘
بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات کے علاوہ کاکس بازار میں روہنگیا کو اپنے ماہانہ فوڈ واؤچرز میں گذشتہ جون 12 ڈالر سے 8 ڈالر تک کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے ہفتے پہلے طاقتور طوفان موچا نے ان کے بہت سے گھروں کو تباہ کر دیا تھا۔
روہیما کھاتُم نومبر میں فاطمہ کے ہمراہ کشتی پر یہاں آئی تھیں۔ وہ کاکس بازار میں گینگز کے سائے میں رہتے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’انھوں نے ہمارے بچوں کو قتل اور ہماری ماؤں اور بیٹیوں کو ریپ کی دھمکی دی۔ انھوں نے میرا بچہ لے لیا اور پیسوں کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے میرے ایک بچے کا قتل کیا اور اس کی لاش کو پھینک دیا۔‘
روہیما کہتی ہیں کہ آچے کی پناہ گاہوں میں صورتحال بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
کشتی سے اترنے کی اجازت نہ ملنے والے وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یقین تھا کہ میں سمندر میں مر جاؤں گی۔‘
’لیکن اب میں یہاں ہوں اور مجھے بہتر محسوس ہو رہا ہے۔‘
Comments are closed.