کراچی میں ٹریفک پولیس کو ریونیو جنریٹ کرنے والا محکمہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا، شہر میں چالان صرف لائسنس اور گاڑی کے کاغذات کی بنیاد پر نہیں بلکہ "ٹارگٹ” پورا کرنے کے لئے بھی کئے جانے کی شکایات ہیں۔ ماہانہ اوسطاً 27 ہزار سے زائد چالان اور ساڑھے 6 کروڑ روپے کے لگ بھگ وصول کے جارہے ہیں۔
دنیا بھر میں چالان غلط ڈرائیونگ اور دیگر کاغذات نہ ہونے پر ہوتے ہیں مگر کراچی میں اس کی وجہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی ہیں۔ اچانک سامنے آنے والے گڑھے، کسی کو بریک لگانے تو کسی کو سائیڈ دبانے پر مجبور کرتے ہیں، یوں کبھی حادثہ تو کبھی چالان ہوجاتا ہے۔
کراچی میں دیگر سہولتوں کی طرح کی ٹریفک پولیس کی نفری بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود چالان کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
اس کی وجہ صرف لائسنس اور کاغذات نہیں، بلکہ اصل معاملہ ٹارگٹ پورا کرنے کا ہے، جس کیلئے قانون کی کوئی نہ کوئی شق استعمال کرکے شہریوں کو لائن حاضر رکھا جاتا ہے، اس کے بعد بات بن گئی تو ٹھیک ورنہ چالان پکا کردیا جاتا ہے۔
شہر میں ٹریفک پولیس عملے کی تعداد 6 ہزار 7 سو 82 ہے جس میں 89 سیکشن آفیسر ہیں۔ ذرائع کا بتانا ہے اعلیٰ افسران کی جانب سے ایک سیکشن آفیسر کو روازانہ کم و پیش 40 چالان کا ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔
اس سال اب تک 27 لاکھ 29 ہزار سے زائد چالان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے 64 کروڑ 23 لاکھ 60 ہزار سے زائد روپے کی وصولی کی گئی ہے۔
یوں ایک ماہ میں 27 ہزار سے زائد چالان کئے جارہے ہیں جن سے 6 کروڑ 42 لاکھ سے زائد رقم وصول ہورہی ہے، اس کا یومیہ اندازہ لگایا جائے تو 9 ہزار سے زائد چالان ہورہے ہیں جن سے ہر روز 2 لاکھ 14 ہزار سے زائد رقم بنائی جاتی ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ چالان سے 30 فیصد رقم ٹریفک پولیس جبکہ 70 فیصد سرکاری خزانے میں جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹریفک پولیس ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے ٹریفک قوانین کے نام پر چالان کاٹنے میں لگی ہوئی ہے۔
Comments are closed.