کورونا ویکسینیشن کے لیے قومی شناختی کارڈ لازمی ہے، لیکن کراچی کے بنگالی پاڑوں میں مقیم 30 لاکھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔
بنگلادیشی اور دیگر تارکین وطن کی ویکسینیشن کے لیے متبادل بندوبست نہ کیا گیا تو ملک کے سب سے بڑے شہر میں وبا کا پھیلاؤ روکنا ممکن نہیں رہے گا۔
کراچی کی مچھر کالونی میں بنگالی پاڑے کی گرد اڑاتی گلیاں، جہاں خیمہ بستیوں سے کہیں بچوں کے رونے تو کہیں کھانسنے کی آوازیں آتی ہیں۔
بانسوں اور چادروں سے بنا ایک خیمہ عبدالمنان کا بھی ہے، جہاں بیماریوں کے ڈیرے ہیں مگر قومی شناخت کا نہ ہونا علاج کے آڑے آرہا ہے۔
شہر میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کی سو کے قریب بستیاں ہیں جن کے مکینوں کی اکثریت قومی شناخت سے محروم ہے۔
ملکی شہریت کے قانون کے قانون کے مطابق 1978 سے پہلے موجودہ پاکستان میں رہنے والے شہریت کے اہل ہونگے، لیکن 60 سالہ عبدالقادر کی شہریت کو شناختی کارڈ جاری کیے جانے کے 20 سال بعد مشکوک قرار دے دیا گیا۔
غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ طاہرہ حسن کراچی میں مقیم بنگالی برادری کے لیے فلاحی کام کرتی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن اس کا حل تاحال نہیں نکالا گیا۔
قومی شناخت سے محروم بنگالیوں نے حکومت پاکستان سے کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے احکامات کی آڑ میں پناہ لے رکھی ہے، لیکن مرتضیٰ وہاب کے پاس ایک حل موجود ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر کورونا کی چوتھی لہر سے خبردار کرچکے ہیں، اگر خیمہ بستیوں میں رہنے والے بنگالیوں کی ویکسینیشن نہ کی گئی تو کراچی جیسے کثیر آبادی والے شہر میں وبا کا پھیلاؤ خوفناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔
Comments are closed.