’کام والی‘ کی فکر اب ختم ہونے کو، 2033 تک گھر کا آدھا کام روبوٹس کریں گے

robots

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’گھر بڑا صاف ہے، لگتا ہے کام والی اچھی ہے،

میں کام والی سے بہت تنگ ہوں، ایک دن آتی ہے دو دن چھٹی کرتی ہے۔‘

ایسے بہت سے جملے ہمیں روز مرہ زندگی میں سننے کو ملتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں گھروں کے کام کاج میں مدد کرنے والے ملازمین ملنا مشکل ہوتا ہے۔

گھریلو خواتین ہو یا ورکنگ وومن کہیں نہ کہیں ان کی گفتگو کا موضوع گھروں کے کاموں کے لیے درکار ’ہاؤس ہیلپ‘ ضرور ہوتا ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اگلی ایک دہائی کے دوران یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2033 تک گھروں اور آپ کے پیاروں کی دیکھ بھال کے تقریباً 39 فیصد کام خودکار ربوٹس کریں گے۔

جاپان اور برطانیہ کے محققین نے 65 مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلیجنس) کے ماہرین سے اگلے 10 برسوں میں عام گھریلو کاموں میں خودکار ٹینکالوجی کے استعمال کا اندازہ لگانے کو کہا۔

جس کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ آپ اگلے دس برسوں کے دوران آپ کے گھر کی گروسری کی خریداری تو زیادہ تر خودکار ٹینکالوجی کے نظام کے تحت ہو جائے گی یعنی روبوٹس یا مشین آپ کے لیے خریداری کریں گے البتہ بچوں یا بوڑھوں کی دیکھ بھال کے سلسلے میں مصنوعی ذہانت پر انحصار کم ہی کیا جائے گا۔

یہ تحقیق پلوس ون جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

یونیورسٹی آف آکسفورڈ اور جاپان کی اوچانومیزو یونیورسٹی کے محققین یہ جاننا چاہتے تھے کہ گھریلو کاموں پر روبوٹس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے اس سوال کا جواب بھی جاننے کی کوشش کی کہ ’اگر روبوٹ ہمارے گھریلو کام کریں گے، تو کیا وہ کم از کم ہمارے لیے کچرا بھی اٹھائیں گے؟‘

محققین نے مشاہدہ کیا کہ ’گھریلو کاموں کے لیے‘ بنائے گئے روبوٹس جیسا کہ روبوٹ ویکیوم کلینر ’دنیا میں سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر تیار اور فروخت کیے جانے والے روبوٹ بن گئے ہیں۔‘

محققین کی ٹیم نے برطانیہ سے 29 اے آئی ماہرین اور جاپان کے 36 اے آئی ماہرین سے گھر میں روبوٹس کے استعمال کے حوالے سے ان کی پیشین گوئیاں پوچھیں۔

محققین نے پایا کہ برطانیہ کے مرد ماہرین، خواتین ہم منصبوں کے مقابلے میں گھریلو آٹومیشن کے بارے میں زیادہ پر امید ہوتے تھے، جبکہ جاپان میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔

آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹیٹیوٹ کے محقق ڈاکٹر لولو شی کہتی ہیں کہ ’لیکن وہ کام جن کے بارے میں ماہرین کے خیال میں آٹومیشن مختلف ہو سکتی ہے جیسا کہ آپ کے پیاروں کی دیکھ بھال، آپ کے بچے کو پڑھانا، آپ کے بچے کے ساتھ وقت گزارنا یا خاندان کے کسی بزرگ فرد کی دیکھ بھال کرنا میں صرف 28 فیصد روبوٹس کے استعمال کا امکان ہے۔‘

robots

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ماہرین کا کہنا ہے جبکہ دوسری طرف توقع ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم گروسری کی خریداری میں صرف کرنے والے وقت کا 60 فیصد بچا سکیں گے۔

’اگلے دس برسوں میں‘ روبوٹ ہمیں گھرلیو کاموں سے آزادی دیں دے گے، ان پیشین گوئیوں کی ان کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس حوالے سے کچھ شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔

سنہ 1966 میں ٹی وی شو ٹومارو ورلڈ میں ایک گھریلو کام کرنے والے روبوٹ کے بارے میں رپورٹ کیا گیا تھا، جو رات کا کھانا پکا سکتا ہے، کتے کو ٹہلا سکتا ہے، بچے کا خیال رکھ سکتا ہے، شاپنگ کر سکتا ہے، کاک ٹیل بنا سکتا ہے اور بہت سے دوسرے کام کر سکتا ہے۔

اس بارے میں یہ خبر چلائی گئی تھی کہ اگر اس کے تخلیق کاروں کو صرف دس لاکھ پاؤنڈ دے دیے جاتے تو یہ سنہ 1976 تک کام کرنا شروع کر دیتا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی آرٹیفشل انٹیلیجنس (اے آئی) سوسائٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ایکٹرینا ہرٹوگ اس معاملے پر پرامید ہو کر گاڑیوں اور گھروں میں مماثلتیں بناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اب سڑکوں پر ٹیکسیوں کی جگہ خودکار کاروں نے لے لی ہے۔اور تقریباً ایک دہائی سے یہ کام کر رہی ہیں مگر ابھی تک، ہم روبوٹس کو اچھی طرح سے کام کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

جیسے یہ خودکار کاریں ہماری گلیوں کے غیر متوقع ماحول سے واقف ہو جاتی ہیں ایسے ہی روبوٹس بھی کا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کیٹ ڈیولن، کنگز کالج، لندن میں اے آئی سوسائٹی کی رکن ہیں اور وہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی انسانوں کی جگہ لینے کی بجائے ان کی مدد کر سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ایسا روبوٹ بنانا جو متعدد کام کر سکے مشکل اور مہنگا کام ہے۔ اس کے بجائے، معاون ٹیکنالوجی بنانا آسان اور زیادہ مفید ہے۔‘

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو آٹومیشن بلا معاوضہ گھریلو کام پر خرچ ہونے والے کافی وقت کو کم کر سکتی ہے۔ برطانیہ میں خواتین کے مقابلے میں مرد نصف گھریلو کام کرتے ہیں۔ جاپان میں مرد خواتین کے مقابلے میں پانچویں حصے سے بھی کم کام کرتے ہیں۔

پروفیسر ہرٹوگ کا کہنا ہے کہ خواتین پر گھریلو کام کا غیر متناسب بوجھ خواتین کی کمائی، بچت اور پنشن پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آٹومیشن کے نتیجے میں صنفی مساوات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم یہ ٹیکنالوجی مہنگی ہو سکتی ہے۔ پروفیسر ہرٹوگ کہتی ہیں کہ اگر گھر کے کاموں میں مدد کرنے کی ٹیکنالوجی صرف معاشرے کے ایک طبقے کی استطاعت میں ہو تو یہ معاشرے میں فارغ وقت کے حوالے سے عدم مساوات میں اضافے کا باعث بنے گا۔‘

اور ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں روبوٹس کے استعمال کے حوالے سے مسائل پر معاشرے کو آگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’جہاں الیکسا جیسے آلات آپ کی بات سن سکتے اور اس بارے میں بتا سکتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا نہیں خیال ابھی ہمارا معاشرہ اپنی پرائیوسی پر اس قسم کے بڑے حملے کے لیے تیار ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ