پوتن کا مقدر روس اور یوکرین کی جنگ سے کیسے جڑا ہے؟

  • مصنف, سٹیون روزنبرگ
  • عہدہ, روس ایڈیٹر، ماسکو

پوتن

،تصویر کا ذریعہRUSSIAN GOVERNMENT

میرے ذہن میں بار بار تین سال قبل روس کے سرکاری ٹی وی پر سنی جانے والی ایک بات آ رہی ہے۔ اس وقت روس کی عوام کو آئین میں ایک ایسی تبدیلی کی حمایت کرنے پر آمادہ کیا جا رہا تھا جس کے ذریعے صدر ولادیمیر پوتن مزید 16 برس برسراقتدار رہ سکتے۔

عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے، نیوز اینکر نے صدر پوتن کو ایک ایسے بحری کپتان سے تشبیہ دی جو روس کے جہاز کو عالمی عدم استحکام کے طوفانی پانیوں سے گزار رہا تھا۔

نیوز اینکر نے کہا ’روس استحکام کا نخلستان ہے، ایک محفوظ بندرگاہ ہے، اگر پوتن نہیں ہوتے تو ہمارا کیا ہوتا؟‘

24 فروری 2022 کو کریملن کے کپتان نے اپنے ہی پیدا کردہ طوفان میں کشتی اتار دی اور انھوں نے سیدھا ایک برفانی تودے کا رخ کیا۔

ولادیمیر پوتن کی جانب سے یوکرین پر حملہ روس کے ہمسایہ کے لیے موت اور تباہی لے کر آیا۔ ان کے اپنے ملک، روس، کو عسکری نقصانات اٹھانا پڑے۔ چند اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

روس نے لاکھوں شہریوں اور قیدیوں (بشمول سزا یافتہ قاتلوں) کو فوج میں بھرتی کیا تاکہ وہ یوکرین میں لڑ سکیں۔ دوسری جانب اس جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں توانائی اور خوراک کی قیمتوں پر اثر پڑا جبکہ یورپ اور عالمی سکیورٹی کو اب تک خطرات لاحق ہیں۔

یہ تمام مسائل کافی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روس کے صدر نے جنگ اور زمین پر قبضے کی سمت کو کیوں چنا؟

پوتن

،تصویر کا ذریعہEPA

سیاسی سائنسدان ایکاٹرینا شولمین کا کہنا ہے کہ 2024 میں ’روس کے صدارتی الیکشن قریب تھے۔‘

’اس ووٹ سے دو سال قبل کریملن کو کسی فتح کی ضرورت تھی۔ 2022 میں وہ اپنے مقاصد پورے کرتے اور 2023 میں روسی شہریوں کو بتایا جاتا کہ وہ ایسے بحری کپتان کی موجودگی میں کتنے خوش قسمت ہیں جو صرف جہاز کو طوفان سے ہی نہیں نکال سکتا بلکہ ان کو نئے اور بہتر ساحل تک لے آیا ہے۔ 2024 میں لوگ ووٹ دیتے اور پھر کیا غلط ہو سکتا تھا؟‘

بہت کچھ، اگر آپ کا منصوبہ غلط اندازوں کی بنیاد پر تیار ہوا ہو۔

کریملن، یعنی روس، کو امید تھی کہ خصوصی عسکری آپریشن بجلی کی مانند تیز ہو گا۔ یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ ہفتوں کے اندر اندر یوکرین روس کے زیر اثر ہو گا۔ صدر پوتن نے یوکرین کی لڑنے کی طاقت اور کیئو کے لیے مغربی ممالک کی حمایت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔

روسی رہنما نے اب تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ یوکرین پر حملہ کرنا ایک غلطی تھی۔ پوتن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تنازعے کو مزید ہوا دیں گے۔

اس سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں: پہلا یہ کہ ایک سال بعد صدر پوتن صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ یوکرین پر ان کی اگلی چال کیا ہو گی؟

اس ہفتے انھوں نے ہمیں کچھ اشارے دیے۔ ان کا سٹیٹ آف دی یونین خطاب مغرب مخالف بیانیے سے بھرپور تھا۔ انھوں نے یوکرین کی جنگ کے لیے امریکہ اور نیٹو کو موردالزام ٹھہرایا اور روس کو ایک معصوم پارٹی کے طور پر پیش کیا۔

روس اور امریکہ کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کا معاہدہ، جسے نیو سٹارٹ کہتے ہیں، میں شمولیت کو معطل کرنے کا ان کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر پوتن کا یوکرین سے پسپائی یا مغرب سے محاذ آرائی ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

اس خطاب کے ایک دن بعد ماسکو کے فٹبال سٹیڈیم میں صدر پوتن کے ہمراہ سٹیج پر یوکرین سے واپس لوٹنے والے فوجی بھی تھے۔ صدر پوتن نے مجمعے سے کہا کہ اس وقت روس کی تاریخی سرحدوں پر لڑائی چل رہی ہے اور انھوں نے روس کے بہادر جنگجوؤں کی تعریف کی۔

نتیجہ: کریملن سے کسی قسم کے یوٹرن کی توقع نہ رکھیں۔ روسی صدر واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہReuters

صدر پوتن کے سابق معاشی مشیر آندرے الاریونوو کا ماننا ہے کہ اگر پوتن کو کسی مخالفت کا سامنا نہ ہوا، تو وہ جہاں تک جا سکے، جائیں گے۔ ’عسکری مخالفت کے علاوہ ان کو روکنے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔‘

لیکن کیا صدر پوتن سے امن کی بات چیت کرنا ممکن بھی ہے؟

آندرے الاریونوو کہتے ہیں کہ ’کسی کے ساتھ بھی بیٹھ کر بات کرنا ممکن ہے لیکن صدر پوتن کے ساتھ کئی معاہدے کیے گئے اور انھوں نے سب کی خلاف ورزی کی۔ آزاد ریاستوں کی کامن ویلتھ کا معاہدہ ہو یا روس اور یوکرین کے درمیان باہمی معاہدہ، روس اور یوکرین کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا معاہدہ ہو یا اقوام متحدہ کا چارٹر، 1975 کا ہیلسنکی ایکٹ ہو یا بوڈاپیسٹ میمورینڈم۔۔۔ ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کو وہ توڑ نہ سکیں۔‘

جہاں تک معاہدوں سے روگردانی کی بات ہے تو روس کے حکام کے پاس بھی مغرب کے خلاف ایک لمبی فہرست ہے جس میں سب سے پہلے روس کا یہ دعویٰ ہے کہ مغرب نے 1990 میں کیے جانے والے اس وعدے کی پاسداری نہیں کی کہ نیٹو اتحاد کو مشرق کی جانب وسعت نہیں دی جائے گی۔

تاہم ولادیمیر پوتن نے اپنے ابتدائی حکومتی وقت میں نیٹو کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا۔ سنہ 2000 میں انھوں نے اس بات کو رد نہیں کیا کہ ایک دن روس بھی اس اتحاد کا حصہ بن سکتا ہے۔

دو سال بعد جب ان سے یوکرین کی نیٹو میں شامل ہونے کی خواہش پر سوال کیا گیا تو صدر پوتن نے کہا تھا کہ ’یوکرین ایک خود مختار ریاست ہے جسے یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنا تحفظ کیسے یقینی بنائے۔‘

انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے روس اور یوکرین تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

2023 کے ولادیمیر پوتن کافی مختلف ہیں۔ مغرب کی اجتماعیت سے نالاں پوتن نے اپنے آپ کو ایک ایسے قلعے کے سربراہ کے طور پر پیش کیا ہے جسے چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہو اور اپنے ملک کو تباہ کرنے کی مبینہ کوششوں کو روک رہے ہوں۔

ان کی تقاریر اور بیانات، جن میں ماضی کے روسی رہنماوں پیٹر دی گریٹ اور کیتھرین دی گریٹ کے حوالے دیے جاتے ہیں، سے ایسا لگتا ہے کہ پوتن سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی شکل میں پرانی روسی سلطنت کو ازسرنو تشکیل دینا ان کا مقدر ہے لیکن روس اس کے لیے کیا قیمت ادا کرے گا؟

ایک وقت تھا جب صدر پوتن کو روس میں استحکام کی وجہ سمجھا جاتا تھا لیکن بڑھتی ہوئی عسکری اموات اور عالمی پابندیوں کے بعد یہ رائے ختم ہو چکی ہے۔ لاکھوں روسی شہری جنگ کے آغاز کے بعد سے ملک چھوڑ چکے ہیں جن میں سے اکثریت نوجوان، ہنر مند اور تعلیم یافتہ ہیں جس سے روس کی معیشت کو اور بھی زیادہ نقصان ہو گا۔

اسی جنگ کی وجہ سے روس میں نئے گروہ پیدا ہوئے ہیں جن میں نجی عسکری کمپنیاں جیسا کہ ویگنر گروپ اور علاقائی بٹالینز شامل ہیں۔ باقاعدہ فوج کے ساتھ تعلقات بگڑ رہے ہیں۔ روس کی وزارت دفاع اور ویگنر گروپ کے درمیان تنازع اس کی ایک مثال ہے۔ عدم استحکام اور نجی فوج ایک خطرناک مجموعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

کونسٹینٹین ریمچوکوو ماسکو کے ایک اخبار کے مدیر اور مالک ہیں، جن کا کہنا ہے کہ روس میں اگلی دہائی میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے کیونکہ ’بہت سے ایسے گروہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں دولت کی ازسرنو تقسیم کا موقع موجود ہے۔‘

’اس خانہ جنگی کو اسی صورت روکا جا سکتا ہے اگر پوتن کے بعد کوئی صحیح شخصیت اقتدار میں آئے جس کے پاس امرا اور بااثر لوگوں کے طبقے پر کنٹرول ہو اور ایسے گروہوں کا راستہ روکنے کا مصمم ارادہ بھی رکھتا ہو۔‘

کونسٹینٹین ریمچوکوو ماسکو کے ایک اخبار کے مدیر اور مالک ہیں

،تصویر کا کیپشن

کونسٹینٹین ریمچوکوو ماسکو کے ایک اخبار کے مدیر اور مالک ہیں

میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا روسی امرا اس وقت یہ بحث کر رہے ہیں کہ کون ایسا شخص ہو سکتا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ’خاموشی سے، اندھیروں میں، وہ اس پر بات کر رہے ہیں، ان کی اپنی آواز ہے۔‘

اور کیا پوتن کو علم ہے کہ یہ بحث ہو رہی ہے؟ کونسٹینٹین نے کہا کہ ’وہ جانتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ سب جانتے ہیں۔‘

رواں ہفتے روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے سپیکر نے اعلان کیا کہ ’جب تک پوتن ہیں، روس ہے۔‘

یہ بیان وفاداری کا اعلان تو ہو سکتا ہے لیکن اس میں حقیقت نہیں۔ روس باقی رہے گا، جیسے صدیوں سے رہا ہے۔ ولادیمیر پوتن کا مقدر اگرچہ اب یوکرین سے جنگ کے نتیجے سے مضبوطی سے جڑ چکا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ