امریکہ میں ڈی این اے کی کم ترین مقدار سے 32 سال پرانے ایک قتل کا سراغ
امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں سنہ 1989 میں ایک 14 سال کی بچی کے قتل کا معمہ حل کر لیا گیا ہے اور ماہرین کا خیال ہے یہ اب تک کسی بھی معاملے کی تحقیق کے لیے حاصل ہونے والے انسانی ڈی این اے کی سب سے کم مقدار سے ممکن ہوا ہے۔
سٹیفنی آئزاکسن کے قتل کے معاملے کی تحقیقات اس وقت تک تعطل کا شکار رہیں جب تک کہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے مشتبہ شخص کے اس ڈی این اے کی جانچ ممکن نہیں ہو پائی جو صرف 15 انسانی خلیوں کے برابر تھا۔
بدھ کے روز پولیس نے کہا کہ انھوں نے جینوم کیی ترتیب اور شجرہ نسب کے عوامی اعداد و شمار کا استعمال کر کے ملزم کی شناخت کی ہے۔
سٹیفنی آئزاکسن کے مبینہ قاتل کی موت 1995 میں ہوئی تھی۔
سٹیفنی کی والدہ کا ایک بیان بدھ کی نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو پڑھ کر سنایا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے میری بیٹی کے قاتل کا سراغ لگا لیا۔‘
’مجھے کبھی یقین نہیں تھا کہ یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
بتیس سال پہلے سٹیفنی کی لاش نیواڈا کے شہر لاس ویگاس میں ان کے معمول کے مطابق سکول جانے والے راستے کے قریب سے ملی تھی۔ ان پر حملہ کر کے گلا دبا دیا گیا تھا۔
اس سال ایک مقامی فرد کی جانب سے عطیہ دیے جانے کے بعد پولیس ایک بار پھر اس معاملے کی دوبارہ تحقیق کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
انھوں نے ڈی این اے کے نمونے ٹیکساس میں واقع جینوم سیکوینسینگ لیب کو دیے، جو پرانے کیسز حل کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔
عام طور پر ڈی این اے ٹیسٹنگ کٹس کو ایک نمونے میں تقریباً 750 سے 1000 نینو گرام ڈی این اے درکار ہوتا ہے۔ یہ نمونے آبائی طب یا صحت سے متعلقہ سرکاری ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔
لیکن جائے وقوعہ پر ڈی این اے کے صرف دسیوں سے لے کر سینکڑوں نینوگرام موجود ہو سکتے ہیں اور اس معاملے میں صرف 0.12 نینوگرام یا تقریباً 15 خلیوں کے برابر ڈی این اے دستیاب تھا۔
ڈیٹا بیس کا استعمال کرتے ہوئے محققین مشتبہ شخص کے کزن کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے اور آخر کار ڈی این اے ڈیرن رائے مرچنڈ سے میچ کر گیا۔
مرچنڈ کا ڈی این اے سنہ 1986 کے ایک قتل کیس کے ریکارڈ میں بھی تھا اور اسے تصدیق کے لیے استعمال کیا گیا۔
انھیں کبھی بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا تھا اور سنہ 1995 میں انھوں نے خودکشی کر لی تھی۔
Comments are closed.