ڈینئل پرل قتل کیس میں حکومتِ سندھ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے فوری نکالنے کا حکم دے دیا جبکہ انہیں 2 دن تک عام بیرک میں رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ 2 دن بعد احمد عمر شیخ کو سرکاری ریسٹ ہاؤس میں رکھا جائے، سرکاری ریسٹ ہاؤس میں اہلِ خانہ صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ساتھ رہ سکیں گے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ احمد عمر شیخ کو سیکیورٹی کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں رکھا جائے، عدالت کی جانب سے احمد عمر شیخ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ دینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ احمد عمر شیخ کے خاندان کو سرکاری خرچ پر رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کیس کا تحریری حکم نامہ آج جاری کیا جائے گا، 2 ہفتوں کے بعد بینچ دستیاب ہو گا، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اپیل دائر کر سکتی ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ احمد عمر شیخ کا دہشت گردوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ احمد عمر شیخ 18 سال سے جیل میں ہے، دہشت گردی کے الزام پر اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستانی قوم 20 سال میں دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئی، سانحۂ آرمی پبلک اسکول اور سانحۂ مچھ دنیا میں کہیں نہیں ہوئے، احمد عمر شیخ عام ملزم نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے، یہ پاکستان کے عوام کیلئے خطرہ ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ احمد عمر شیخ کا دہشت گردوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں، جن کارروائیوں کا ذکر کیا ان سے عمر شیخ کا تعلق کیسے جڑتا ہے؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ احمد عمر شیخ 18 سال سے جیل میں ہے، دہشت گردی کے الزام پر کیا کارروائی ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست سمجھتی تھی کہ احمد عمر کے خلاف ڈینیئل پرل قتل مضبوط کیس ہے، احمد عمر لندن اسکول آف اکنامکس میں زیرِ تعلیم رہا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کل تک آپ کا اعتراض تھا کہ ہائی کورٹ نے وفاق کو نہیں سنا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چند دن پہلے بھی افواج کے جوان دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افواج کی قربانیوں سے انکار نہیں لیکن ہم آئین کے پابند ہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عمر شیخ اور دیگر زیرِحراست افراد کو ملزم نہیں کہا جا سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمر شیخ اور دیگر کو رہا کیا گیا تو یہ غائب ہو جائیں گے زمینی حقائق تقاضہ کرتے ہیں کہ رہائی کے احکامات معطل کیئے جائیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کیسے اعتراض کر سکتی ہے؟ وفاقی حکومت نے تو سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت غیر قانونی حراست کو درست قرار دے؟
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان کو غائب ہونے سے بچانے کیلئے جیل میں رکھنا لازمی ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ زیرِ حراست افراد کو اہلِ خانہ کے ساتھ نہ رہنے دیا جائے، اہلِ خانہ ساتھ ہوں گے تو موبائل فون سے رابطے ہو سکتے ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ حکومت کے بقول موبائل فون تو عمر شیخ جیل میں بھی استعمال کرتا رہا ہے، جیل میں کیا کچھ ہوتا ہے ہم سب جانتے ہیں۔
عمر شیخ کے وکیل نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے استدعا کی کہ احمد عمر سعید شیخ کو لاہور میں رکھا جائے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عمر شیخ پر الزام ڈینئل پرل کے اغواء کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عمر شیخ دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث ملزم ہے، اس کو رہا نہ کیا جائے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا یہ ثابت ہوا کہ عمر شیخ دہشت گردی میں ملوث رہا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کے پاس اختیار ہے کہ خطرناک ملزمان کو حراست میں رکھ سکے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نے عمر شیخ کو پہلے ہی 1 ماہ تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا ہے، عدالت آپ کے غیر قانونی اقدامات کو قانونی قرار نہیں دے سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تاریک دور نہیں کہ ملزم 18 سال کے بعد بھی قید میں رہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ڈینئل پرل قتل کی ویڈیو میں لاش کا چہرہ دکھائی نہیں دیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.