چیٹ جی پی ٹی: کیا چین مصنوعی ذہانت کی دنیا میں امریکہ کو مات دے سکتا ہے؟

getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت اتنا اہم موضوع بن چکا ہے کہ گذشتہ ہفتے کے آخر میں جی سیون سربراہی اجلاس، جہاں پہلے ہی بہت مصروف ایجنڈا چل رہا تھا، وہاں بھی اسے زیرِ بحث لایا گیا۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں خدشات امریکہ کی جانب سے اہم ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

فی الحال ایسا لگتا ہے کہ امریکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دوڑ میں آگے ہے اور اس بات کا امکان پہلے ہی موجود ہے کہ چین کو سیمی کنڈکٹر کی برآمدات پر موجودہ پابندیاں ٹیکنالوجی کی دنیا میں بیجنگ کی ترقی کو روک سکتی ہیں۔

لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق چین اس دوڑ میں آگے نکل سکتا ہے کیونکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مشتمل کسی بھی پروڈکٹ کو مکمل ہونے میں برسوں لگتے ہیں۔

ٹریویم چائنا میں ٹیک پالیسی ریسرچ کی سربراہ کینڈرا شیفر نے بی بی سی کو بتایا کہ چینی انٹرنیٹ کمپنیاں امریکی انٹرنیٹ کمپنیوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس طرح ترقی کی پیمائش کر رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق چین کی ’اعلی درجے کے سازوسامان اور پرزے تیار کرنے کی صلاحیت اس شعبے کے لیڈر دوسرے ممالک سے محض 10 سے 15 سال پیچھے ہے۔

سیلیکون ویلی فیکٹر

getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ کو سب سے بڑا فائدہ سلیکون ویلی کا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے۔ گوگل، ایپل اور انٹیل جیسے ٹیکنالوجی کے بڑے ناموں نے یہیں سے شروعات کی اور جدید زندگی کو تشکیل دینے میں مدد کی۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس ریسرچ کے ڈائریکٹر پاسکل فنگ کا کہنا ہے کہ ملک میں نئی ایجادات کی خواہش رکھنے والوں کو اس کی منفرد تحقیقی ثقافت سے مدد ملی ہے۔

فنگ کہتی ہیں کہ محققین اکثر، برسوں تک کسی پروڈکٹ کو ذہن میں رکھے بغیر ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر اوپن آئی برسوں تک ایک غیر منافع بخش کمپنی کے طور پر کام کرتا رہا اور اپنی تحقیق کے دوران اس نے ٹرانسفارمرز کے مشین لرننگ ماڈل پر تحقیق کی، جس نے بالآخر چیٹ جی پی ٹی کی تخلیق میں مدد ملی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’چینی کمپنیوں میں ایسا کوئی ماحول موجود نہیں تھا لیکن اس نظام کی مقبولیت کو دیکھنے کے بعد ہی وہ اس سیکھنے کے لیے ایسے ماڈل بنائیں گے اور یہ چین میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر کام کرنے والوں کے لیے ایک بنیادی چیلنج ہے۔‘

امریکی سرمایہ کاروں نے بھی ملک میں ریسرچ بڑھانے کی حمایت کی ہے۔ سنہ 2019 میں مائیکروسافٹ نے کہا تھا کہ وہ اوپن آئی میں ایک ارب ڈالر لگائے گا۔

مائیکروسافٹ کے چیف ایگزیکٹو ستیہ ناڈیلا نے کہا کہ ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہمارے وقت کی سب سے زیادہ تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجیز میں سے ایک ہے اور اس میں ہماری دنیا کے بہت سے اہم چیلنجز کو حل کرنے میں مدد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘

getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چین کو کیا فائدہ حاصل ہے؟

چینی مصنوعات کے صارفین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ اس کا فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جہاں تقریباً 1.4 ارب لوگ رہتے ہیں۔

ریس کیپیٹل انویسٹمنٹ فرم کے ایک پارٹنر ایڈتھ یونگ کا کہنا ہے کہ اس میں انٹرنیٹ کا تیزی سے ترقی کرتا سیکٹر بھی شامل ہے۔

مثال کے طور پر، ملک میں تقریباً ہر کوئی سپر ایپ وی چیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ صارفین ٹیکسٹ میسجز بھیجنے سے لے کر ڈاکٹر سے وقت لینے اور ٹیکس جمع کروانے کے لیے بھی یہی استعمال کرتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں معلومات کا ایک خزانہ ہاتھ آتا ہے جو مصنوعات کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یونگ کہتی ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈل اتنا ہی اچھا ہو گا جتنا کہ اس سے سیکھنے کے لیے دستیاب ڈیٹا میسر ہو گا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اب اسے اچھا جانیں یا برا، چین میں پرائیویسی کے بارے میں بہت کم اصول ہیں اور (امریکہ کے مقابلے میں) بہت زیادہ ڈیٹا موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہر جگہ سی سی ٹی وی چہرے کی شناخت کر رہا ہے۔ تصور کریں کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تیار کردہ تصاویر کے لیے کتنا فائدہ مند ہو گا۔‘

لی کائی فو اپنی کتاب ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس سپر پاورز: چائنا، سیلیکون ویلی اور دی نیو ورلڈ آرڈر‘ میں دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگچہ ایسا تاثر مل سکتا ہے کہ چین کی ٹیک کمیونٹی امریکہ سے پیچھے ہے لیکن چین کے ڈویلپرز کو برتری حاصل ہے۔

بیجنگ کے انٹرنیٹ سیکٹر کی ایک ممتاز شخصیت اور گوگل چائنا کے سابق سربراہ نے لکھا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں تیز رفتاری ضروری ہے، نقل کرنا قابل قبول ہے اور ایک نئی مارکیٹ میں جیتنے کے لیے حریف کسی بھی حربے سے باز نہیں آئیں گے۔

’یہ ماحول سلیکون ویلی سے بالکل مختلف ہے، جہاں نقل کرنا برا مانا جاتا ہے اور بہت سی کمپنیاں نئے آئیڈیا اور خوش قسمتی پر انحصار کرتی ہیں۔‘

چین میں ٹریڈ مارک کے سنگین مسائل بھی ہیں۔ لی لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے سخت محتنی کاروباریوں کی ایک نسل میں مقابلہ بڑھ گیا۔

فنگ کہتی ہیں کہ 1980 کی دہائی سے چین اپنی معیشت کو بڑھا رہا ہے، جو پہلے مینوفیکچرنگ پر مبنی تھی مگر اب ٹیکنالوجی پر توجہ ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’پچھلی دہائی میں ہم نے چینی صارفین کی چلائی جانے والی انٹرنیٹ کمپنیوں اور چینی ڈیزائنوں کی جانب سے زیادہ جدت دیکھی ہے۔‘

مصنوعی ذہانت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا چین مقابلہ کر سکتا ہے؟

اگرچہ چینی ٹیک کمپنیوں کو یقینی طور پر منفرد فوائد حاصل ہیں لیکن بیجنگ کی آمریت کا مکمل اثر ابھی تک واضح نہیں۔

مثال کے طور پر اس بارے میں سوالات ہیں کہ آیا سنسر شپ چین میں تیار کردہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس چیٹ بوٹس کی ترقی کو متاثر کرے گی؟ کیا وہ صدر شی جن پنگ کے بارے میں حساس سوالات کا جواب دے سکیں گے؟

یونگ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ چین میں کوئی بھی متنازعہ سوالات پوچھے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سنسر شدہ موضوع ہے۔ حساس موضوعات (چیٹ بوٹس کے) استعمال کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہیں۔ ہاں میڈیا میں انھیں زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔‘

سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ خصوصی ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو محدود کرنے کی امریکی کوششیں چین کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی صنعت کو روک سکتی ہیں۔

بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپیوٹر چپس یا سیمی کنڈکٹرز، اب واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بہت زیادہ تناؤ کا باعث ہیں۔ وہ روزمرہ کی مصنوعات بشمول لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز میں استعمال ہوتے ہیں اور ان میں فوجی ایپلیکیشنز ہو سکتی ہیں۔ وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سیکھنے کے لیے ضوری ہارڈویئر کے لیے بھی اہم ہیں۔

فنگ کہتی ہیں کہ اینویڈیا جیسی امریکی کمپنیاں فی الحال آرٹیفیشل انٹیلیجنس چپس تیار کرنے میں سرفہرست ہیں اور برآمدی پابندیوں کے باعث چند چینی کمپنیاں ہی چیٹ جی پی ٹی کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔

شیفر کہتی ہیں کہ اگرچہ اس سے چین کی جدید ترین آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی اعلیٰ ٹیکنالوجی والی صنعتوں کو نقصان پہنچے گا لیکن اس سے صارفین کے زیرِ استعمل ٹیکنالوجی جیسے کہ موبائل اور لیپ ٹاپ کی پیداوار متاثر نہیں ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’برآمدات پر کنٹرول چین کو فوجی مقاصد کے لیے جدید آرٹیفیشل انٹیلیجنس تیار کرنے سے روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔‘

فنگ کہتی ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لیے چین کو اپنی سیلیکون ویلی کی ضرورت ہے، ایک تحقیقی ثقافت جو متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے ٹیلنٹ کو راغب کرے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ اب تک اس نے اندرونِ ملک صلاحیتوں اور چینی ورثے کے ساتھ بیرون ملک مقیم افراد، دونوں پر انحصار کیا ہے مگر ایک جیسی ثقافتی سوچ محدود ہوتی ہے۔

بیجنگ نے اس حوالے سے ’بگ فنڈ‘ بھی متعارف کروایا ہے، جو چپ کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر مراعات پیش کرتا ہے لیکن اس نے سیکٹر پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

مارچ میں ژاؤ ویگو ترین ٹیکنالوجی ٹائیکون بن گیا مگر اس پر حکام کی جانب سے بدعنوانی کا الزام لگایا گیا۔

بعض صنعتوں پر بیجنگ کی توجہ مالی مراعات فراہم کر سکتی ہے اور اس حوالے سے پابندیوں کو نرم کر سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب زیادہ جانچ پڑتال، زیادہ خوف اور غیر یقینی صورتحال بھی ہو سکتی ہے۔

شیفر کہتی ہیں کہ ژاؤ کی گرفتاری دیگر سرکاری فرموں کے لیے ایک پیغام ہے: ریاست کے پیسے کے ساتھ کھلوار کا سوچیں بھی مت۔۔۔ خاص کر چپ والی صنعت میں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اب کام پر جت جانے کا وقت آگیا ہے۔‘

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ پیغام چین کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی صنعت کے مستقبل کو کس طرح متاثر کرے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ