چین کے لیے تائیوان پر حملہ کرنا کتنا آسان ہوگا؟
چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تائیوان کے فضائی حدود میں مسلسل مداخلت کے بعد اب چین کی اعلیٰ قیادت نے تائیوان کے ‘اتحاد’ کی بات کی ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ تائیوان کا ‘اتحاد مکمل ہونا چاہیے۔’
چینی صدر نے کہا ہے کہ دوبارہ اتحاد پرامن طریقے سے ہونا چاہیے، لیکن انھوں نے خبردار بھی کیا کہ چینی عوام علیحدگی پسندی کی مخالفت کی ایک ‘عظیم روایت’ رکھتے ہیں۔
جواب میں تائیوان نے بھی کہا ہے کہ اس کا مستقبل اس کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔
تائیوان کی صدر سائی اینگ وین نے کہا ہے کہ تائیوان اپنی سلامتی کو مضبوط کرتا رہے گا تاکہ کوئی بھی ان کے جزیرے پر طاقت کا استعمال نہ کر سکے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اتوار کو نیشنل ڈے کی ریلی میں سائی نے کہا : ‘ہم اپنی قومی سلامتی کو مضبوط بناتے رہیں گے اور ہم اپنی حفاظت کے لیے اپنا عزم ظاہر کرتے رہیں گے تاکہ کوئی بھی تائیوان کو اس راستے پر چلنے پر مجبور نہ کرے جو چین نے ہمارے لیے بنایا ہے۔
‘اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے جو تجویز پیش کی ہے وہ نہ تو تائیوان کے لیے ایک آزاد اور جمہوری طرز زندگی ہے اور نہ ہی یہ ہمارے 23 ملین لوگوں کو خودمختاری دیتا ہے۔’
تائیوان کی صدر سائی اینگ وین
تائیوان خود کو ایک خودمختار ملک سمجھتا ہے
تائیوان خود کو ایک خودمختار ریاست سمجھتا ہے جبکہ چین کا ماننا ہے کہ یہ اس کا ایک صوبہ ہے۔
چین اور تائیوان سنہ 1940 میں خانہ جنگی کے دوران تقسیم ہو گئے تھے، لیکن بیجنگ دہرا رہا ہے کہ وہ اس جزیرے کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔
اس جزیرے کا اپنا آئین اور جمہوری طور پر منتخب رہنما ہیں۔ تائیوان میں تین لاکھ افراد پر مبنی فوج بھی ہے۔
تاہم، تائیوان کو اب بھی صرف چند ممالک تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بجائے بیشتر ممالک نے چینی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔
امریکہ کے بھی تائیوان کے ساتھ سرکاری تعلقات نہیں ہیں لیکن اس نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے تحت وہ جزیرے کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔
تائیوان پر بیجنگ کی حکمرانی کو قبول کرنے کے لیے فوجی اور سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور تائیوان پر چینی لڑاکا طیاروں کا بار بار گزرنا بین الاقوامی تشویش کا مسئلہ ہے۔
حالیہ دنوں میں چین نے کئی بار تائیوان کے فضائی دفاع کی خلاف ورزی کی ہے اور اس پر ریکارڈ تعداد میں لڑاکا طیارے بھیجے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اتوار کو قومی دن سے قبل پروازیں تائیوان کے صدر کے لیے انتباہ ہیں۔
بیجنگ نے طاقت کے استعمال سے اتحاد کے امکان کو بھی رد نہیں کیا۔ تائیوان کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی 40 سالوں میں بدترین سطح پر ہے۔
چین پر تائیوان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا گيا ہے
کیا ہو سکتا ہے؟
کچھ تجزیہ کار، عہدیدار اور سرمایہ کار یہ بھی مانتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں یہ معاملہ مزید سنگین ہو جائے گا اور امریکہ کے ساتھ جنگ کا امکان ہے۔
چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے چین کی فضائیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ تائیوان کو اوپر سے مانیٹر کرے اور اگر اسے نشانہ بنایا گیا تو اسے ‘فوجی طریقوں سے انضمام مکمل کرنا چاہیے’۔
دوسری جانب تائیوان نے کہا ہے کہ وہ اسی وقت حملہ کرے گا جب اس پر حملہ کیا جائے گا۔
دونوں طرف سے ان بیانات کے درمیان، چین اور تائیوان کے پاس جنگ کو ملتوی کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ اس جنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا سکتے ہیں، معیشت برباد ہو سکتی ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایٹمی تنازعے بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
نیوز چینل بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ان تمام خطرات کے بجائے چین تائیوان کو دوسرے طریقوں سے کنٹرول میں رکھنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
اس میں چین فوجی دھمکیوں، سفارتی تنہائی اور معاشی مراعات کے ذریعے تائیوان پر قبضہ کرے گا۔ حال ہی میں تائیوان میں ایکوئٹی ریکارڈ بلندیوں پر تھی۔
بہر حال یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ عزائم چین کو جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی بات شی جن پنگ کا خود کو ثابت کرنا ہے۔
شی جن پنگ ‘کھوئے ہوئے علاقے’ واپس حاصل کرکے اپنی طاقت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کے ساتھ بگڑتے تعلقات، ہانگ کانگ میں جاری کشیدگی اور کورونا وائرس کے حالات سے لے کر ٹیکنالوجی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مسابقت جیسے موضوعات اس تناؤ کی وجوہات بتائے جاتے ہیں۔
پروجیکٹ 2049 انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر ڈائریکٹر ایان ایسٹن نے بلومبرگ کو بتایا: ‘میری تشویش تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ایک بڑا بحران آنے والا ہے۔
‘یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ حملے کی کوششیں عالمی قوتوں کی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اگلے پانچ سے دس سال انتہائی خطرناک اور بنیادی طور پر غیر مستحکم ہونے والے ہیں۔’
ایسٹن جیسے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کچھ سالوں میں تائیوان پر قبضہ کر لے گا۔ فوجی مشقوں، ہتھیاروں کی خریداری اور اسٹریٹجک دستاویزات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ چین تائیوان کو ایک جھٹکے میں قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ کو اس کی مدد کا موقع نہ ملے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چین نے تائیوان کے مقابلے میں اپنی فوج پر 25 گنا زیادہ خرچ کیا ہے اور کاغذ پر بیجنگ کا فوجی توازن بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
میزائلوں سے لے کر لڑاکا طیاروں تک ہر سطح پر چین کو زبردست برتری حاصل ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں جس کا وہ کبھی ذکر نہیں کرتا۔
چین کے اہداف کیا ہیں؟
سنہ 1911 میں چین میں آخری بادشاہت کے خاتمے کی 110 ویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے شی جن پنگ نے سنیچر کے روز کہا کہ اتحاد ‘پرامن طریقے سے’ ہونا چاہیے جو کہ ‘چینی قوم اور تائیوان کے عوام کے مکمل مفاد میں ہوگا۔’
لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘کسی کو بھی چینی عوام کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی مضبوط صلاحیت اور عزم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
‘مادر وطن کے مکمل انضمام کا تاریخی کام لازمی ہے اور ضرور پورا ہو گا۔’
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ تائیوان پر کئی طریقوں سے حملہ کر سکتا ہے، جس میں پہلا تائیوان کے مالیاتی نظام اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ہے۔ اس میں وہ سائبر اور الیکٹرانک جنگ کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے امریکی سیٹلائٹ کو بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں علم نہ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیے
نیز، چینی جہاز تائیوان جانے والے جہازوں کو روک سکتا ہے تاکہ اس کا ایندھن اور خوراک کی فراہمی بند ہو جائے۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تائیوان کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کو فضائی حملوں کے ذریعے نشانہ بنا سکتا ہے۔ چینی فوج نے بتایا ہے کہ اس نے کئی جنگی مشقیں کی ہیں۔ سیٹلائٹ کی تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ ان مشقوں میں صدارتی دفتر کی عمارت جیسے اہداف کے جعلی ماڈلز موجود تھے۔
اس کے ساتھ ہی چین جنگی جہازوں اور آبدوزوں کے ذریعے بھی تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔
امریکی فوجی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ جہاز تائیوان کے دفاع کے لیے بہت ضروری ہیں
در حقیقت، تائیوان پر کوئی بھی حملہ خطرناک ہوگا کیونکہ تائیوان بھی اس کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔
تائیوان کے پاس قدرتی دفاعی نظام بھی ہے۔ اس کے پہاڑوں میں ایسی سرنگیں ہیں جو اہم رہنماؤں کو زندہ رکھ سکتی ہیں اور چین کے کسی بھی حملے سے تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔
تائیوان نے اپنی فوجی صلاحیت کے منصوبوں کو سنہ 2018 میں عام کیا۔ اس میں ایک موبائل میزائل سسٹم بھی تھا جس کے میزائل بغیر پتا چلے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔ سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور طیارہ شکن توپیں چین کے تائیوان پہنچنے سے پہلے چین کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
دوسری طرف تائیوان کو امریکہ جیسی عالمی طاقت کی بھی حمایت حاصل ہے۔
چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات سنہ 1996 میں بہت خراب ہو گئے تھے جب حالیہ کشیدگی سے پہلے چین نے میزائل تجربات سے صدارتی انتخابات میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ پھر امریکہ نے اپنے لڑاکا طیارے بھیج کر اسے روک دیا تھا۔
کئی مغربی ممالک نے چین کے عسکری عزائم پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی کہا ہے کہ شی جن پنگ نے ‘تائیوان معاہدے’ کی پاسداری پر اتفاق کیا تھا۔
بائیڈن امریکہ کی دیرینہ ‘ایک چین’ پالیسی کا ذکر کر رہے تھے جس کے تحت امریکہ تائیوان کے علاوہ تمام چین کو تسلیم کرتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت امریکہ تائیوان کے ساتھ ‘ٹھوس غیر رسمی’ تعلقات استوار کر سکتا ہے۔ امریکہ تائیوان کو ریلیشنز ایکٹ کے تحت اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت امریکہ اپنے دفاع میں تائیوان کی مدد کر سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا تھا کہ امریکہ آبنائے تائیوان میں کسی بھی ایسی کارروائی کے خلاف ‘کھڑا ہو کر بات کرے گا’ جو خطے میں ‘امن اور استحکام کو نقصان پہنچائے گی۔’
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین کا تائیوان پر قبضہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
Comments are closed.