چین تائیوان کے خلاف ’گرے زون‘ میں اپنی طاقت کے مظاہرے سے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟

چین، تائیوان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جوئل گینٹو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

گزشتہ ماہ جب تائیوان نے چین کے لڑاکا طیاروں کی جانب سے سرحد عبور کرنے کے واقعات میں ریکارڈ حد تک اضافے کے بعد تشویش کا اظہار کیا تھا تو بیجنگ نے اس معاملے پر کہا تھا کہ دونوں مُمالک کے درمیان ایسی کوئی سرحد یا لائن دونوں مُلکوں کے درمیان موجود ہی نہیں۔

چین نے تائیوان کے قریب 103 لڑاکا طیارے اڑائے جن میں سے 40 طیارے جزیرے کی فضائی دفاعی زون (ایئر ڈیفنس آئیڈنٹی فکیشن زون، اے ڈی آئی زیڈ) میں بھی داخل ہوئے۔ اس سارے عرصے میں چینی جنگی مشقوں میں خطرناک اضافہ ہوا۔

بیجنگ، جو طویل عرصے سے تائیوان پر دعویٰ کرتا رہا ہے، نے گزشتہ ایک سال کے دوران لڑاکا طیاروں اور بحری جہازوں کے ذریعے خود ساختہ جزیرے کا محاصرہ کرنے کی بار بار مشق کی ہے۔ چین کی جانب سے تائیوان کے ساتھ ’دوبارہ اتحاد‘ کے عزم کی کوششوں میں فوجی مشقوں نے خاص طور پر خطرناک موڑ لیا ہے۔

اب تک، یہ حربے ایک حملے سے کم ہی رہے ہیں تاہم حساس ’گرے زون‘ تک محدود رہے ہیں، یعنی فوجی اور دفاعی زبان میں ایسے کہا جا سکتا ہے کہ چین کے یہ حربے اب تک امن اور جنگ کی حساس لائن پر رہے ہیں۔

لیکن تائیوان اب امریکہ اور چین کے تعلقات میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’گرے زون‘ بیجنگ کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت تائی پے کو ایک بھی گولی چلائے بغیر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

چین کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ ’گرے زون کی جنگی حکمت عملی کا مقصد ایک طویل عرصے تک دشمن کو کمزور کرنا ہے اور چین تائیوان کے ساتھ بالکل یہی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

لندن کے کنگز کالج میں مشرقی ایشیا میں جنگ اور حکمت عملی کے پروفیسر الیسیو پاٹلانو کہتے ہیں کہ ’تائیوان کے اے ڈی آئی زیڈ (ایئر ڈیفنس آئیڈنٹی فکیشن زون) کو باقاعدگی سے عبور کر کے بیجنگ اس بات کی جانچ کر رہا ہے کہ تائیپے اسے مضبوط بنانے کے لیے کس حد تک جائے گا۔‘

اے ڈی آئی زیڈ خود ساختہ ہے اور تکنیکی طور پر اسے بین الاقوامی فضائی حدود کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، لیکن حکومتیں اسے غیر ملکی طیاروں کی نگرانی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

پروفیسر پاٹلانو نے کہا کہ ’تائیوان نے اپنے اے ڈی آئی زیڈ میں چینی طیاروں کو خبردار کرنے کے لیے باقاعدگی سے لڑاکا طیاروں کی تیاری کی ہے جس سے طویل عرصے میں تائیوان کے وسائل پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔‘

لیکن یہ واحد مقصد یا فائدہ نہیں بلکہ تجزیہ کاروں کے مطابق ان مشقوں سے چین کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع ملے گا جیسا کہ فورس کوآرڈینیشن اور نگرانی اور دوسرا یہ کہ چین کی جانب سے تائیوان پر فوجی دباؤ کی بڑھتی ہوئی سطح کو معمول پر لانے کے طریقہ کار پر پورا اترتا ہے تاکہ تائیوان کے دفاع اور جزیرے کے لیے بین الاقوامی حمایت کو جانچا اور سمجھا جا سکے۔

چین تاییوان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

امریکہ میں قائم نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کے ایک نان ریزیڈنٹ فیلو ڈیوڈ گیٹر کا کہنا ہے کہ ’یہ حالات کے معمول پر آنے کے اقدامات ایک حقیقی حملے کی جانب لے کر جانے کا موجب بھی ہو سکتے ہیں، جس سے تائیوان اور (اس کے اہم اتحادی) امریکہ کے لیے اس کے مطابق تیاری کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘

بیجنگ کے اقدامات نے تائیوان کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ آبنائے تائیوان میں اس کی سرحد چین کے ساتھ ہے، جو جزیرے اور چینی سرزمین کے درمیان واقع ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ سے جب ستمبر میں ہونے والی مشقوں پر تائیوان کے رد عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’آبنائے تائیوان میں کوئی نام نہاد درمیانی لائن نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ تائیوان کے عوام کو اس طرح کی مشقوں اور طاقت سے پیدا ہونے والے خطرے کے بارے میں بے حس کرنے کا کام کرتا ہے، جو جنگ کے امکان کے لیے تائیوان کی زیادہ پرعزم فوجی تیاری کے لیے سیاسی حمایت کو کمزور کر سکتا ہے۔‘

زیادہ تر تجزیہ کار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تائیوان کی سکڑتی ہوئی فوج، فوج کے پاس موجود پرانا توپ خانہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور چین کا مقابلہ نہیں کر پائے گے۔

تائیوان پبلک اوپینیئن فاؤنڈیشن کی جانب سے گزشتہ برس کیے گئے ایک سروے کے مطابق تائیوان کے بہت سے باشندے بھی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں، جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان میں سے آدھے سے کچھ زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر چین جنگ کرتا ہے تو وہ جیت جائے گا۔

اور پھر بھی ایک بڑے دفاعی بجٹ کی خواہش چین کے مقابلے میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے ایک حالیہ سروے کے مطابق تائیوان کے تقریبا آدھے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ اخراجات کافی ہیں جبکہ ایک تہائی کا خیال ہے کہ یہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔

چین گرے زون کی حکمت عملی کب استعمال کرتا ہے؟

چین اکثر تائیوان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی سیاسی تبادلوں کے جواب میں فوجی مشقیں کرتا ہے۔

اگست 2022 میں امریکی سپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے دورے کے بعد سے چین کی جانب سے ان مشقوں میں اضافہ ہوا۔ بیجنگ نے ایک ہفتے تک جاری رہنے والی مشقوں کی مدد سے امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کا جواب دیا ان مشقوں میں چار روزہ براہ راست فائرنگ کی مشقیں شامل تھیں، جس کے بعد آبدوز مخالف حملے اور سمندری حملے کی ریہرسل شامل تھیں۔

پھر اپریل میں جب تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے کیلیفورنیا میں امریکی سپیکر کیون میک کارتھی سے ملاقات کی تو چین نے اپنے شانڈونگ طیارہ بردار بحری جہاز کی مدد سے تائیوان کے محاصرے کی مشق کی۔

یہاں تک کہ چین نے مشرق میں تائیوان کے بحرالکاہل کے ساحل پر بھی جیٹ طیارے اڑائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی بجائے اسی سمت سے حملے کر رہا ہے، جس کا سامنا مین لینڈ چین سے ہے۔

چین تیزی سے تائیوان کی ناکہ بندی کی مشق کرتا دکھائی دے رہا ہے لیکن پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ ’اس کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں کیونکہ اس سے تائی پے کے اتحادیوں کو خود کو متحرک کرنے کا وقت ملے گا۔‘

تائیوان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ستمبر میں ہونے والی مشقیں تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی کے دورہ امریکہ کے بعد ہوئیں۔ تائی پے نے ان مشقوں کے بارے میں اس وقت خبردار کیا تھا جب چین نے جنوری میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سب سے آگے رہنے والے ولیم لائی کو امریکہ جانے کے لیے ’مشکلات پیدا کرنے والا‘ قرار دیا تھا۔

کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ چین اپنے لاپتہ وزیر دفاع لی شانگ فو کے بارے میں افواہوں کے بعد طاقت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بیجنگ کے یہ حربے تائیوان کی حد تک ہی محدود نہیں۔ چین تقریبا پورے بحیرہ جنوبی چین پر اپنی دعویداری قائم کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرتا ہے، جو تائیوان کا کنٹرول حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

یہ پانی اربوں ڈالر کی شپنگ لین کی میزبانی کرتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ بیجنگ نے متنازع پانیوں میں چٹانوں پر بڑے ڈھانچے تعمیر کیے ہیں جہاں فلپائن، تائیوان، ملائیشیا، ویتنام اور برونائی کا دعویٰ ہے۔

بین الاقوامی ٹریبونل کے فیصلے کے باوجود بیجنگ کے دعووں کی کوئی قانونی بنیاد نہیں لیکن اس نے ان پانیوں میں فلپائن کی سکیورٹی اور ماہی گیری کے جہازوں کو روکنے کے لیے کوسٹ گارڈ اور ملیشیا کے جہاز بھی تعینات کیے ہیں۔

کیا گرے زون کے یہ ہتھکنڈے مزید بڑھ سکتے ہیں؟

ان مشقوں کے نتیجے میں عسکری تسلط میں اضافہ ہوا ہے، چاہے وہ تائیوان کے آس پاس کے پانیوں میں ہوں، یا اوپر فضا میں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بحیرہ جنوبی چین میں اپنی فوجی مشقیں بھی تیز کر دی ہیں۔ ابھی اسی ہفتے میں ہی امریکہ اور فلپائن نے ایک اور دور کا آغاز کیا ہے۔

اگرچہ کسی بھی فریق کا ارادہ اشتعال انگیزی کا نہیں لیکن مبصرین کو خدشہ ہے کہ جنگی جہازوں اور لڑاکا طیاروں کی تیاری نے جنگ سے متعلق اندازوں کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔

دونوں ممالک کی افواج اب براہ راست بات چیت بھی نہیں کریں گی، حالانکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ہاٹ لائن کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس سے کشیدگی کی جانب بڑھنے والے کسی بھی غیر مناسب قدم کو روکا جا سکے گا۔

تائیوان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ستمبر میں ہونے والی مشقیں تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی کے دورہ امریکہ کے بعد ہوئیں

امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے باوجود چین نے تائیوان سے دور رہنے اور پیچھے ہٹنے کے اشارے دیے ہیں۔

ستمبر میں دراندازی کے واقعات میں ریکارڈ اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں چینی صدر شی جن پنگ کی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔

ڈیوڈ گیٹر کہتے ہیں کہ ’چینی صدر شی نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ ’طاقت کا استعمال ترک کرنے کا کبھی وعدہ نہیں کریں گے‘ اور یہ کہ تائیوان کو چین کے ساتھ ’متحد ہونا چاہیے اور وہ رہے گا۔‘

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ’آنے والے مہینوں میں چین کو احتیاط اور سوچ سمجھ کر ہر قدم اُٹھانا ہو گا کیونکہ اپنی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ کرنے سے ولیم لائی (تائی وان کے نائب صدر) کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے، جنھیں وہ تائیوان کی آزادی کے حامی امیدوار کے طور پر دیکھتا ہے۔

اگلے سال بیجنگ اپنے نئے ’فوجی طیارہ بردار بحری جہاز‘ کو فوجی دستے میں شامل کر رہا ہے، جو اب تک کا سب سے جدید ترین بحری بیڑا ہے، جس کے بارے میں تائی پے کا کہنا ہے کہ ’اس سے چین کی آبنائے تائیوان کو سیل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔‘

گیٹر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’چین کی فوجی مشقیں مزید وسیع ہوتی جائیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم توقع کر سکتے ہیں کہ یہ تعداد اس وقت تک مزید بڑھے گی جب تک کہ وہ اس سطح تک پہنچ جائیں جو حقیقی حملے میں نظر آتی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ