چین اور روس کے درمیان فاصلے قربتوں میں کیسے بدلے؟
جب ماؤزے تنگ نے پہلی بار سوویت یونین کا دورہ کیا تو جوزف سٹالن نے ان سے ملنے پر رضامندی ظاہر کرنے سے پہلے انھیں ماسکو کے مضافات میں ایک گیسٹ ہاؤس میں کئی ہفتوں تک انتظار کرایا لیکن جب شی جن پنگ نے گذشتہ ہفتے روس کا دورہ کیا تو صورتحال بالکل مختلف تھی۔
1950 میں چین اور سوویت یونین کے درمیان ماؤ اور سٹالن میں دوستی، اتحاد اور باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے کے 73 سال بعد، شی جن پنگ اور ولادیمیر پوتن نے دنیا کے سامنے دونوں ممالک کے درمیان ’بے مثال دوستی‘ کا مظاہرہ کیا۔
لیکن دونوں ملک نظریاتی اختلافات، دوریاں، مفاہمت اور مسلح تصادم کا طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔
ان دونوں ملکوں کی تاریخ طویل اور کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کئی دہائیوں تک سوویت یونین اور چین کمیونزم کے دو عظیم قطب تھے، جو اصولوں کی اپنی اپنی تشریحات اور اپنے عالمی اثر و رسوخ پر کئی بار آمنے سامنے آئے۔
لیکن سنہ 1950 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتر تھے۔
چینی خانہ جنگی، جو 1927 سے 1936 تک جاری رہی اور 1945 سے 1949 تک دوبارہ شروع ہوئی، نے قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک پر کنٹرول کے لیے لڑتے ہوئے دیکھا۔
سرد جنگ کے پس منظر کے ساتھ یہ حیران کن نہیں کہ چین کی خانہ جنگی میں امریکہ اور سوویت یونین نے کس طرف کا انتخاب کیا۔
چیانگ کائی شیک کی سیاسی جماعت کو امریکہ سے مالی مدد اور ہتھیار ملے۔ امریکہ نے اپنے 50 ہزار فوجیوں کو بعض سٹریٹیجک مقامات کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا۔
اسی دوران ماؤزے تنگ کی چینی کمیونسٹ پارٹی کو سوویت روس کی حمایت حاصل تھی۔
کمیونسٹ پارٹی قوم پرستوں کو تائیوان کے جزیرے تک دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی۔ سنہ 1949 میں ماؤ نے جمہوریہ چین کا اعلان کیا۔
سٹالن کے لیے کمیونسٹ چین امریکہ کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور ایشیا میں سوشلسٹ بلاک کو وسعت دینے کے لیے صحیح پارٹنر تھا۔
ماؤ، جنھیں ایک ایسے ملک کی تعمیر نو کی ضرورت تھی، جس نے کئی سال جاپانیوں (1937-1945) سے لڑتے ہوئے گزارے تھے اور خانہ جنگی کی آگ میں ڈوب گئے تھے، انھیں سوویت یونین کی مدد کی ضرورت تھی۔
دو بار روس کا دورہ
ماؤ، جنھوں نے کبھی چین نہیں چھوڑا، نے پہلی بار مالی امداد کے لیے سوویت یونین کا دورہ کیا۔ اپنی پوری زندگی میں انھوں نے صرف دو بار بیرونی ممالک کا دورہ کیا۔ دوسرا سفر ماسکو کا تھا۔
چینی سیاست کے پروفیسر اور کیمبرج یونیورسٹی میں سینٹر فار جیو پولیٹکس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ولیم ہرسٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ماؤ، سٹالن کے رویے سے ناخوش تھے، جس نے انھیں انتظار میں رکھا اور چین کو وہ نہیں دیا جو وہ چاہتا تھا۔‘
درحقیقت، سٹالن کو نو تشکیل شدہ عوامی جمہوریہ چین کے رہنما سے ملنے میں کئی ہفتے لگے۔ انھوں نے ماؤ کو ماسکو کے مضافات میں ایک گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا۔ اس دوران ماؤ کی تحریک پر بھی کچھ پابندیاں لگیں۔
سوویت یونین اس وقت ایک طاقتور ملک تھا اور چین کو ’غلام ملک‘ کے طور پر دیکھتا تھا، جو اس طرح کے ذلت آمیز سلوک کو برداشت کر سکتا تھا۔
تاہم چند ہفتوں بعد دونوں رہنماؤں نے ’چین سوویت معاہدہ دوستی، اتحاد اور باہمی مدد‘ پر دستخط کیے، جس سے چین کو انتہائی ضروری حمایت حاصل ہوئی، جس نے چین کو مغربی ممالک کی پابندیوں کو شکست دینے میں مدد کی۔
ماسکو ایک ایسی عظیم طاقت اور ماڈل تھا جس سے ماؤزے تنگ سیکھنا چاہتے تھے۔ اس کی جھلک اس وقت کے ان کے پروپیگنڈے میں بھی تھی۔ ان برسوں میں بار بار دہرایا جانے والا ایک نعرہ تھا کہ ’آج کا سوویت یونین ہمارے کل (مستقبل) کی طرح ہے۔‘
اس وقت ماسکو نے چین کو فوجی اور مالی امداد دی تھی۔ طلبا کو سکالر شپ دی اور تکنیکی سامان بھی فراہم کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہزاروں انجینئرز کو چین بھیجا جنھوں نے ملک میں صنعتی نیٹ ورک بنانے میں بہت مدد کی۔
لیکن سنہ 1958 کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آنے لگی۔
سنہ 1949 میں ماؤ نے جمہوریہ چین کا اعلان کیا
’گریٹ لیپ فارورڈ‘ حکمت عملی
ہرسٹ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت تک چین نے اپنی ’گریٹ لیپ فارورڈ‘ حکمت عملی کے ساتھ مزید بنیاد پرست اقتصادی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا تھا جبکہ سوویت یونین کے رہنما نیکیتا خروشچف اپنی طاقت کو مضبوط کرنے اور سٹالن کے حامیوں کو سائیڈ لائن کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘
سٹالن کا انتقال 1953 میں ہوا۔ اس کے بعد اقتدار نیکیتا خروشچف کے ہاتھ میں آ گیا، جنھیں ایک اعتدال پسند اصلاح پسند رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
ہرسٹ کہتے ہیں کہ وہ (نیکیتا خروشچف) سٹالن کی طرف سے لائی گئی معاشی تبدیلیوں کو بدل کر مارکیٹ پر مبنی سوشلزم کی طرف بڑھنا چاہتے تھے۔
ماؤ اس کے بالکل برعکس تھے۔
گریٹ لیپ فارورڈ پالیسی کو بعد میں مؤرخین اور خود چینی کمیونسٹ پارٹی نے ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا۔ اس پالیسی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس پالیسی نے ملک کی تیز رفتار صنعت کاری کا مطالبہ کیا اور عملی طور پر صرف سٹیل کی تیاری پر اصرار کیا۔
زرعی پیداوار کو چھوڑ کر گریٹ لیپ فارورڈ پالیسی کے لیے لاکھوں کسانوں کو متحرک کیا گیا، جس کی وجہ سے ملک میں تباہ کن قحط پڑا۔
امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف ٹوریزیان ’چائنا پاور‘ پوڈ کاسٹ پر کہتے ہیں کہ ماؤ کو سٹریٹجک اور سیاسی اختلافات ہونے پر وجوہات تلاش کرنے کی عادت تھی۔
جب انھوں نے خروشچف کے رویے کو دیکھا تو سوچا کہ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی میں کچھ غلط تھا، جسے انھوں نے نظر ثانی کا نام دیا۔
ماؤ نے نئے سوویت رہنما کی مغربی ممالک کے ساتھ ’پرامن بقائے باہمی‘ کی پالیسی کی خواہش کو ’سامراجی عزائم‘ کی پیداوار قرار دیا۔
ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے ماؤ اور خروشچف کے درمیان جو خلیج بڑھنے لگی وہ آخر کار چین اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ کے طور پر مشہور ہوئی۔
نتیجتاً دونوں نے سفارتی تعلقات توڑ لیے اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک پر بالادستی کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی بڑھ گئی۔
ولیم ہرسٹ کہتے ہیں کہ ’سنہ 1960 کی دہائی کے اواخر میں، چین نے سوویت یونین کو کم از کم امریکہ جتنا بڑا خطرہ دیکھا۔‘
اس وقت ماسکو کی بھی چین کے لیے کوئی مختلف رائے نہیں تھی۔
1966 میں چین نے ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا، جسے خروشچف کے جانشین لیونیڈ بریزنیف نے ’خاص طور پر غیر مستحکم اور خطرناک‘ سمجھا۔
چین اور سوویت یونین دوستی، اتحاد اور باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے
مسلح تصادم
باہمی عدم اعتماد نے دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر کئی جھڑپوں کو جنم دیا اور 1969 میں یہ جھڑپیں دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑے مسلح تصادم پر ختم ہوئیں۔ یہ تصادم ژین باؤ جزیرے کے ایک چھوٹے سے دریا پر ہوا، جس کی سرحد دونوں ممالک سے ملتی ہے۔
چینی فوجیوں نے سوویت یونین پر حملہ کرنے کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی تاہم کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ ماؤ اس تنازعے سے سماجی طور پر متحرک ہونا چاہتے تھے جو ثقافتی انقلاب کی وجہ سے کئی دہائیوں کے انتشار کے درمیان اتحاد کو بحال کر سکے۔
اس تنازعے میں فریقین کے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
سوویت یونین کو اس حملے کی توقع نہیں تھی اور نہ ہی اس نے سوچا تھا کہ اسی سال اگست کے مہینے تک ملک کے دوسرے کنارے یعنی سنکیانگ کی سرحد کے ساتھ ایک نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا۔
جوزف ٹوریزیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد یو ایس ایس آر نے سگنلز کا ایک سلسلہ بھیجنا شروع کیا جس سے چینیوں کو یقین ہو گیا کہ جوہری حملہ ہو سکتا ہے اور اگر اس کا امکان نہ بھی ہو، تو انھیں کم از کم اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔”
اس کے بعد چین کی ذہنیت میں تبدیلی آئی۔
ٹوریزیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے، چین نے ’تیسرے محاذ‘ کی پالیسی شروع کی، جس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کے جوہری حملے کے خلاف اپنا دفاع کرنا شامل تھا لیکن یہ حکمت عملی زیادہ دیر نہیں چل سکی۔
چین نے محسوس کیا کہ بیک وقت دو سپر پاورز سے نمٹنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ ولیم ہرسٹ بتاتے ہیں کہ ’چین نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے ساتھ صف بندی کرنا مناسب سمجھا، جس نے یقیناً 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد نہیں کی۔‘
ہرسٹ کہتے ہیں کہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے دوسرے امریکی سیاست دانوں کے برعکس اسے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔‘
یو ایس ایس آر کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے، امریکہ نے اقوام متحدہ میں جمہوریہ چین کو نشست سونپنے پر رضامندی ظاہر کی۔
ایک سال بعد سنہ 1972 میں نکسن نے چین کا تاریخی دورہ کیا اور 1979 میں دونوں ممالک نے دوبارہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔
سال 1976 میں ماؤ کی موت نے بھی ملک کے لیے ایک نئی سمت کا آغاز کیا۔ ڈینگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں چینی مارکیٹ پہلے سے زیادہ کھل گئی۔
سٹالن کے بعد اقتدار نیکیتا خروشچف کے ہاتھ میں آ گیا، جنھیں اعتدال پسند اصلاح پسند رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا
کمیونزم پر تسلط کی کشمکش
چین سوویت تعلقات کے تنازع کا اثر دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں پر دیکھا گیا تاہم کمیونسٹ بلاکس پر تسلط کے لیے سوویت یونین اور چین کے درمیان زیادہ تر جنگ نظریاتی محاذ پر لڑی گئی، دونوں طاقتیں کمیونسٹ پارٹیوں اور عسکریت پسند گروپوں یا گوریلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی تھیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں ابھرے تھے۔
میکسیکو کی میچواکانا یونیورسٹی کے میگوئیل اینجل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ دراڑ کمیونسٹ پارٹیوں کے دل میں اس قدر داخل ہو گئ کہ اس سے وابستہ کئی انتہا پسند گروپوں نے امریکا کے ساتھ ’پرامن تعلقات‘ کو مسترد کر دیا۔
مثال کے طور پر کولمبیا میں کمیونسٹ پارٹی بحران کا شکار ہو گئی اور اس سے الگ ہو کر ماؤ ازم کے زیر اثر مارکسسٹ، لیننسٹ کولمبیا کی کمیونسٹ پارٹی بنائی۔ اس گروپ نے بعد میں ’نیشنل لبریشن آرمی‘ کے نام سے ایک گوریلا گروپ بنایا۔
دوسرے ممالک جیسے ارجنٹائن، ایکواڈور، چلی، برازیل، وینزویلا اور میکسیکو میں بھی یہ تقسیم دیکھی گئی۔
چین اور سوویت کے درمیان جنوب مشرقی ایشیا میں نظریاتی کشمکش بھی دیکھی گئی۔ پروفیسر ٹوریزیان کا کہنا ہے کہ ’چین اس وقت کمبوڈیا میں ایسے گروپ کی حمایت میں سامنے آیا تھا، جسے سوویت یونین انتہائی خطرناک سمجھتا تھا۔‘
سوویت یونین کا ٹوٹنا
ہرسٹ کہتے ہیں کہ ’سوویت یونین 1980 کی دہائی میں چین کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا اور اس نے چین کو امریکہ جاپان کے ساتھ قریبی تعاون کرنے کی ترغیب دی۔‘
لیکن 1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر تبدیلی ہوئی۔
روس کے نئے صدر بوریس یلتسین پر چین کا بھروسہ نہیں تھا جس کی قیادت میں بڑے پیمانے پر نجکاری ہوئی اور زیادہ طاقت بڑے طبقے کے ہاتھ میں آگئی لیکن چین اور امریکہ کے درمیان جو اتحاد قائم ہوا تھا وہ اب کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
سنہ 2001 میں، روس اور چین نے دوستانہ تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ولیم ہرسٹ کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد سے چین مسلسل مختلف طاقتوں کے درمیان توازن تلاش کرنے اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے نہ صرف امریکہ، روس اور جاپان بلکہ ہندوستان یا یورپ سے بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
گزشتہ 30 سال میں امریکہ اور جاپان کے ساتھ چین کے تعلقات مسلسل کمزور ہوتے رہے اور پچھلی دہائی میں وہ انتہائی بری حالت میں آ گئے۔
ہرسٹ نے کہا کہ ’یہ روس کے ساتھ مثبت تعلقات کو برقرار رکھنا ضروری بناتا ہے حالانکہ چین روس کا اتحادی نہیں۔ چین کا دنیا میں صرف ایک رسمی اتحاد ہے اور وہ شمالی کوریا کے ساتھ ہے۔‘
تاہم ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتحادی رہنا ہے یا نہیں لیکن ’روس چین کے لیے انتہائی مفید ہے۔‘
روس اب چین کا اہم اتحادی بن چکا ہے۔ گزشتہ 20 سال سے، وہ ہوا بازی کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے چین کو بہت سی اہم ٹیکنالوجیز دے رہا ہے۔
مثال کے طور پر روس سے بلاتعطل توانائی کی فراہمی نے چین کو مشرق وسطیٰ اور امریکہ سے اپنی درآمدات کو متنوع اور متوازن بنانے میں مدد کی ہے۔
چین اور روس ایک بار پھر قریب آگئے ہیں لیکن اب روس کو چین کے تعاون کی زیادہ ضرورت ہے۔ چین اس وقت روس کا تجارتی پارٹنر ہے جبکہ یوکرین جنگ کے بعد روس پر عائد پابندیوں کو ناکام بنانے میں چین نے اہم کردار ادا کیا۔
ماؤ کے روس کے تاریخی دورے کی سات دہائیوں بعد دونوں ممالک کے کردار الٹ چکے ہیں۔ شی جن پنگ روس گئے لیکن اب وہاں نہ تو گیسٹ ہاؤس تھا اور نہ ہی طویل انتظار۔ استقبال کے لیے صرف مسکراہٹیں اور سرخ قالین تھا۔
Comments are closed.