چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالتی سال کی تقریب پر تقریر کے معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کو خط لکھ دیا۔
ان ججز نے اپنے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس کے خطاب نے ہمیں ششدر اور نہایت مایوس کر دیا، ہمیشہ کوشش کی کہ غیر ضروری تنازع سے گریز کریں۔
خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا دفاع اور تنقید کا جواب دیا، سپریم کورٹ کی جانب سے یک طرفہ طور پر بات کی گئی، سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں۔
ججز نے اپنے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیا جو نہایت ہی پریشان کن تھا، سپریم کورٹ بار کے موجودہ، متعدد سابق عہدیداروں کے بارے میں اہانت آمیز باتیں کیں۔
خط میں کہا گیا کہ سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایا، کیونکہ انہوں نے فل کورٹ کی درخواست دائر کی تھی، سب سے زیادہ نا مناسب، غیر معقول جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کا ذکر کرنا تھا، جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا جو کہا گیا۔
ججز نے خط میں کہا کہ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کے ارکان پر حملہ کریں، چیف جسٹس نے جو کہا وہ ریکارڈ کے خلاف تھا، یہ درست نہیں کہ ان کے امیدواروں کی تائید جوڈیشل کمیشن کے 4 ارکان نے کی، چیئرمین اپنا ہدف حاصل نہ کر سکے تو اکثریت کے فیصلے کو خود پر حملہ سمجھا۔
خط میں کہا گیا کہ آئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اپنے کل ارکان کی اکثریت سے ججز نامزد کرے گا، چیف جسٹس جب تقریر پڑھ رہے تھے تو ہم ان کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔
ججز نے خط میں مزید کہا کہ تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم چیف جسٹس کی تقریر کے دوران خاموش رہے، چیف جسٹس کی تقریر کی اشاعت پر ہم وضاحت دینے پر مجبور ہوگئے ہیں، ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے رضا مندی سے تعبیر نہ کیا جائے۔
Comments are closed.