بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

چاند گاڑی بنانے کے لیے ناسا کا ایلون مسک کی کمپنی کا انتخاب

مون لینڈر: چاند گاڑی بنانے کے لیے ناسا کا ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کا انتخاب

  • پال رنکن
  • سائنس ایڈیٹر، بی بی سی نیوز ویب سائٹ

راکٹ

،تصویر کا ذریعہNASA

،تصویر کا کیپشن

یہ گاڑی سپیس ایکس کے سٹارشپ ڈیزائن پر مبنی ہے

ناسا نے رواں دہائی کے دوران انسان کو چاند پر لے جانے کے لیے ایک مون لینڈر یعنی چند گاڑی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کام کے لیے ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کا انتخاب کیا گیا ہے۔

یہ گاڑی خلائی ایجنسی ناسا کے آرٹیمز پروگرام کے تحت اگلے مرد اور پہلی خاتون کو چاند کی سطح پر لے جائے گی۔

اس پروگرام کا ایک اور ہدف چاند پر پہلے غیر سفید فام فرد کو بھی لے جانا ہے۔

یہ لینڈر سپیس ایکس کے سٹارشپ ہنر پر مبنی ہے جس کا تجربہ جنوبی ٹیکساس میں ایک مقام پر کیا جا رہا ہے۔

سپیس ایکس کو ایرو سپیس میں کام کرنے والی روایتی بڑی کمپنیوں کا مقابلہ تھا۔ ان میں ایمازون کے بانی جیف بیزوس اور ایک دوسری کمپنی ڈائنیٹکس کی مشترکہ بولی بھی شامل تھی۔ ایلون مسک کی کمپنی کو دیے جانے والے معاہدے کی کل مالیت 2.89 ارب امریکی ڈالر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس کے متعلق کمپنی میں انسانی ایکسپلوریشن کی سربراہ کیتھی لوڈرز نے کہا: ’اس معاہدے کے ساتھ ناسا اور ہمارے شراکت دار اکیسویں صدی میں چاند کی سطح پر پہلے انسانی مشن کو مکمل کریں گے، اس کے ساتھ ایجنسی خواتین کو خلائی مہمات میں مساوی حقوق دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

’یہ اہم قدم انسانیت کو چاند کی مہم کے قابل عمل راستے پر لے جاتا ہے اور ہماری نظر کو مریخ سمیت نظام شمسی کی دوسری مہمات کی جانب لے جاتا ہے۔‘

خلائی گاڑی

،تصویر کا ذریعہNASA

ٹرمپ انتظامیہ کے تحت شروع کیے جانے والے آرٹیمز پروگرام نے سنہ 2024 میں چاند پر دوبارہ انسان کو بھیجنے کا ہدف رکھا تھا لیکن فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے اس مقصد کا حصول تقریباً ناقابل عمل ہو گیا ہے۔

ایلون مسک برسوں سے سٹارشپ کا ڈیزائن تیار کر رہے ہیں۔ سائنس فِکشن کے سنہری دور کے راکٹ جہازوں سے مماثل یہ ڈیزائن انسانوں کو مریخ پر آباد کرنے کے لیے اس کاروباری شخص کے طویل مدتی منصوبوں کا اہم جزو ہیں۔

بہر حال ابھی ان کا یہ لینڈر خلابازوں کو چاند کے مدار سے چاند کی سطح تک لے جانے کا کام کرے گا۔

چاند پر انسان

،تصویر کا ذریعہNASA

،تصویر کا کیپشن

چاند پر انسان کے دوباہ پہنچنے کے مشن کو آرٹ ورک کے ذریعے بیان کیا گیا ہے

سنہ 1969 اور 1972 کے درمیان امریکی اپالو پروگرام کے تحت لونر ماڈیول کے ذریعے 12 افراد کو چاند کی سطح پر لے جایا گیا تھا۔

مگر اب ایک نسبتا وسیع کیبن والی گاڑی ہو گی جس میں دو ایئر لاکس ہوں گے جس سے خلاباز باہر نکل کر چاند کی سطح پر چہل قدمی کریں گے۔

اس نئی گاڑی کو ہیومن لینڈنگ سسٹم (ایچ ایل ایس) کے نام سے پکارا جائے گا۔

حالیہ دنوں میں ناسا نے خلائی نقل و حمل کی خدمات کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ کمپنیوں کا انتخاب کیا ہے جس سے انھیں متبادل مل جاتا ہے کہ اگر کوئی ایک ان کے کام کو انجام دینے میں ناکام ہو تو وہ دوسرے سے رجوع کر سکتے ہیں۔

مون لینڈر بنانے کے لیے ناسا نے کانگریس سے 3.3 ارب ڈالر کی درخواست کی تھی، اس میں سے اسے اب تک صرف 85 کروڑ ڈالر ہی موصول ہوئے ہیں۔

ایک بیان میں لیوڈرز نے کہا کہ ’ایچ ایل ایس پروگرام کے اس مرحلے پر ایجنسی اچھے مقابلے کا ماحول برقرار رکھنے کی خواہش رکھتی ہے،‘ لیکن اس کے موجودہ بجٹ نے اسے دو کمپنیوں کے انتخاب سے روک دیا جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پس پشت اخراجات یا لاگت ایک اہم عنصر ہے۔ سپیس ایکس کی بولی تینوں حریفوں میں ’وسیع فرق‘ کے ساتھ سب سے کم تھی۔

لیوڈرز نے وضاحت کی: ’میں نے فیصلہ کیا کہ ایجنسی کے بہترین مفاد میں ابتدائی طور پر سپیس ایکس کا مشروط انتخاب ہو گا۔‘

اس فیصلے نے کانگریس میں ہلچل مچا دی ہے۔ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد ناسا بھی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ اسے ایک عبوری انتظامیہ چلا رہی ہے اور اس ایجنسی کو چلانے کے لیے بائیڈن کے منتخب کردہ سابق سینیٹر اور خلاباز بل نیلسن کی اگلے ہفتے تصدیق ہو گی۔

بل نیلسن

،تصویر کا ذریعہJEFF MITCHELL

،تصویر کا کیپشن

بل نیلسن کو امریکی صدر جو بائيڈن نے ناسا کی سربراہی کے لیے منتخب کیا ہے جس کی توٹیق آنے والے دنوں میں ہوگی

کانگریس میں سائنس، سپیس اور ٹیکنالوجی سے متعلق ہاؤس کمیٹی کی ڈیموکریٹ چیئرپرسن ایڈی برنیس جانسن نے کہا: ’میں مایوس ہوں کہ کارگزار ناسا کی قیادت نے نئے مستقل ناسا ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کی آمد سے قبل ہی اتنا اہم اور دور رس فیصلہ کر لیا۔

’آج سودا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ ناسا کی چاند کی مہم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ امریکی خلابازوں کا سنہ 2024 تک چاند پر پہنچنے کا کوئی حقیقت پسندانہ امکان نہیں ہے۔‘

ناسا نے سنہ 1972 کے بعد سے خلابازوں کے ساتھ پہلی لینڈنگ کے لیے چاند کے جنوبی قطبی خطے کو منتخت کیا ہے۔ اس علاقے میں واٹر آئس کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو مستقبل میں قمری سفر کو تقویت پہنچانے کے لیے راکٹ ایندھن اور سانس لینے والی ہوا میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔

لیکن یہاں نیچے آنے میں بھی بڑے چیلنجز ہیں کیوں کہ سورج کا زاویہ یہان لمبے سائے ڈالتا ہے جو خلائی گاڑی کے نیچے سطح پر آنے میں وہاں کی سطح کو دھندلا دیتا ہے۔

انجینئروں کو پہلے آرٹیمس لینڈنگ کے اپنے منصوبوں کو بہتر بنانے کے لیے ان پریشانیوں کو حل کرنے کی ضرورت ہو گی۔

سپیس ایکس کا نیشنل ٹیم کے خلاف سخت دوڑ تھی جس میں بلیو اوریجن (بیزوس کی قائم کردہ کمپنی)، لاک ہیڈ مارٹن، نارتھروپ گرومین اور ڈریپر اور دفاعی ٹھیکیدار ڈائنیٹکس شامل تھے۔

ناکام مشن

،تصویر کا ذریعہSpaceX

یہ کنٹریکٹ مسک کی قائم کردہ 19 سالہ کمپنی کے لیے ایک اور سنگ میل کی نمائندگی کرتا ہے جس نے ابتدائی طور پر خلائی سفر کے اخراجات کو کم کرنے کے اپنے منصوبوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات کو دور کیا تھا۔

سپیس ایکس کا پیسہ تقریباً ختم ہو گیا تھا لیکن سنہ 2008 میں اسے ناسا کی جانب سے ایک اچھا معاہدہ مل گیا جس کے تحت وہ اپنے منصوبے پر گامزن رہا۔

اس کے بعد سے اس نے تجارتی مصنوعی سیاروں کی لانچنگ میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور لوگوں کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن آئی ایس ایس لے جانے اور لانے کا ایک منافع بخش معاہدہ کیا ہے۔

سٹارشپ خلائی گاڑی کا فی الحال جنوبی ٹیکساس کے بوکا چیکا میں ایک جگہ پر تجربہ کیا جارہا ہے۔ بغیر انسان والے کئی نمونے آزمائے جا چکے ہیں جو زمین سے دس کلومیٹر یا اس سے زیادہ کی بلندی تک لے جائے گئے ہیں اور پھر زمین پر نرمی کے ساتھ اتارے گئے ہیں۔ تاہم آخری کچھ آزمائشی پروازیں زمین پر اترنے سے قبل ہی یا پھر واپسی میں پیڈ پر ہی گاڑیوں کے پھٹنے کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں۔

ہنٹسویلا میں ایجنسی کے مارشل خلائی پرواز مرکز میں ہیومن لینڈنگ سسٹم کی پروگرام منیجر لیزا واٹسن-مورگن نے کہا: ’یہ ناسا اور خاص طور پر آرٹیمز ٹیم کے لیے ایک دلچسپ مرحلہ ہے۔

’اپالو پروگرام کے دوران ہم نے یہ ثابت کیا کہ بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز ممکن ہوئی: یعنی انسان کو چاند پر اتارا گیا۔ ناسا کی مصدقہ تکنیکی مہارت اور صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اس صنعت کے باہمی تعاون کے تحت ہم امریکی خلابازوں کو ایک بار پھر چاند کی سطح پر لے جائیں گے، لیکن اس بار نئے علاقوں میں نسبتاً زیادہ وقتوں کے لیے۔‘

آرٹیمز پروگرام کا مقصد چاند پر طویل مدتی موجودگی کے قیام کے ساتھ چاند پر ایک بیس بنانے کا بھی ارادہ ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.