چائے جس نے امریکہ کو برطانوی غلامی سے آزادی دلانے میں کردار ادا کیا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ 16 دسمبر 1773 کی نصف رات کی بات ہے جب امریکی شہر بوسٹن کے گریفن میں لنگر انداز تین جہازوں پر مسلح افراد کا ایک ہجوم سوار ہوا جن میں سے کچھ لوگوں نے موہاک جنگجوؤں کا لباس پہن رکھا تھا۔
ان جہازوں میں 340 ڈبوں میں 92,000 پاؤنڈز یا تقریباً 41,000 کلو گرام چائے بھری ہوئی تھی۔ اس وقت یہ امریکہ کے اس خطے میں سب سے زیادہ مقبول مشروب تھا۔
سنز آف لبرٹی کے نام سے مشہور امریکی محب وطن گروپ کی حمایت سے جہاز میں داخل ہونے والوں نے جہازوں کی اچھی طرح تلاشی لی اور چائے کو جہاز سے نکال کر بوسٹن کے بندرگاہ میں پھینک دیا۔
برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے مطابق اس سے انھیں آج کے حساب سے دس لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
چائے کی تباہی کے اس واقعے نے برطانیہ کی 13 کالونیوں کو انقلاب کی طرف دھکیل دیا یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ امریکی انقلاب نے جنم لیا۔ بوسٹن میں ہونے والی اس تقریب کو بنیادی طور پر ’ہوسٹن ٹی پارٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
16 دسمبر کے واقعے تک برطانوی پارلیمنٹ کی طرف سے ان کی رضامندی کے بغیر ٹیکس لگانے کی بار بار کوششوں پر کالونیوں کے اعتراضات کا پرامن حل ممکن نظر آتا تھا۔
لیکن اس رات کے بعد دونوں فریقوں نے نوآبادیاتی طاقت پر سخت موقف اختیار کیا اور ایک سال کے اندر اس وقت کے برطانیہ اور امریکہ دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بوسٹن کے بندرگاہ پر چائے کو سمندر میں الٹ دیا گيا تھا
نجی املاک پر حملہ
ٹی پارٹی نے بہت سے محب وطنوں کو ناراض کیا کیونکہ یہ نجی املاک پر حملہ تھا، جس کا نتیجہ بالآخر امریکہ کو بھگتنا پڑا۔ جب جارج واشنگٹن کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے چائے کو تباہ کرنے کی مذمت کی۔
بینجمن فرینکلن اس کارروائی سے اس قدر ناخوش ہوئے کہ انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا نقصان خود ادا کرنے کی پیشکش کی۔
پہلے سوال کا جواب اس متنازع معاہدے میں پنہا ہے جو برطانوی وزیر اعظم لارڈ نارتھ نے سنہ 1773 کے موسم بہار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کی سب سے امیر اور طاقتور جماعت تھی۔ اس کی اپنی فوج بھی تھی، جو بادشاہ کی باقاعدہ افواج سے دگنی تھی۔
سیاسی ماہر معاشیات ایڈم سمتھ نے جنوبی ایشیا میں اس کی علاقائی سلطنت کی انتظامیہ کو ’عسکری اور جابرانہ‘ قرار دیا تھا۔
تاہم بنگال میں شدید خشک سالی اور اس کی اپنی انتظامیہ میں بدعنوانی کی وجہ سے کمپنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی۔
چائے کا قانون ہی ناردرن کے لیے ایک حل تھا۔ ہندوستان اور امریکہ دونوں میں برطانیہ کے مسائل کو حل کرنے کی امید میں، پارلیمنٹ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو شمالی امریکہ میں کم قیمت پر 17 ملین پاؤنڈ چائے فروخت کرنے کی لیز دی، لیکن دوسری طرف پارلیمنٹ نے چائے پر نوآبادیاتی ٹیکس جو اس نے ٹاؤن شینڈ ریونیو ایکٹ 1767 کے تحت نافذ کیا تھا اسے برقرار رکھا۔
یہاں تک کہ ٹیکس کی اضافی قیمت کے باوجود کمپنی کی چائے کسی بھی دوسری چائے سے سستی ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ڈیوٹی فری ڈچ چائے جو جان ہینکوک جیسے تاجروں کے ذریعے سمگل کی جاتی تھی اس سے بھی سستی۔
سنہ 1765 کے سٹامپ ایکٹ کے بعد سے کالونیوں پر ٹیکس لگانے کی پارلیمنٹ کی کوششیں بہت حد تک ناکام ہو گئیں، اور شمالی امریکہ کے نوآبادیاتی باشندوں کو خدشہ تھا کہ چائے کے ایکٹ کا مطلب برطانوی سیاست دانوں کی فتح ہو گا، جن کا ماننا تھا کہ پارلیمنٹ کو کالونیوں میں ان کے نمائندے کی رضامندی کے بغیر محصولات بڑھانے کے لیے ٹیکس لگانے کا حق حاصل ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بوسٹن کے بندرگاہ پر چائے کو نقصان پہنچایا گیا
چائے کے خلاف مزاحمت
بوسٹن میں ہونے والے واقعات کی گونچ امریکہ کے مشرقی ساحل پر آباد دوسرے شہروں میں بھی سنائی دی۔
اس معاملے میں بوسٹن اکیلا شہر نہیں تھا۔ اس کے خلاف سب سے زیادہ پرتشدد مزاحمت میساچوسٹس میں ہوئی۔
جیسے جیسے چائے کے قانون کی مخالفت پھیلتی گئی نیویارک اور فلاڈیلفیا میں محب وطن لوگوں نے کمپنی کے بحری جہازوں کو چائے لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے جہازوں کو برطانیہ واپس جانے پر مجبور کیا۔
دوسری جگہوں پر چائے کو بندرگاہ پر اتار کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
چارلسٹن کے بعد جنوبی کیرولائنا کے تاجروں نے چائے کی کھیپ کے لیے ادائیگی کی، مقامی محب وطن لوگوں نے انھیں اسے بندرگاہ میں خالی کرنے پر مجبور کیا۔
شمالی کیرولائنا کے ایڈنٹن میں خواتین نے احتجاج کیا اور ان میں سے 51 نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس میں انھوں نے اس وقت تک چائے نہ پینے کا عہد کیا جب تک کہ ان کے ‘آبائی ملک کو غلام بنانے’ کے قانون کو ختم نہیں کیا جاتا۔
ولیمنگٹن بندرگاہ کی خواتین نے قصبے کے چوک پر چائے جلائی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فریڈرک نارتھ
پارلیمنٹ میں غم و غصہ
چائے کی تباہی کی خبر جب لندن پہنچی تو امریکی مفادات سے ہمدردی رکھنے والے برطانوی شہری بھی برہم ہوگئے۔ جزوی طور پر یہی وجہ ہے کہ بہت سے استعماریت کی حمایت کرنے والوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ذاتی املاک پر حملہ تھا۔
اس واقعے کا پارلیمنٹ نے تین تعزیری قوانین کے ساتھ جواب دیا۔ میساچوسٹس کی خود مختاری کو محدود کر دیا گيا، کالونی کی عدالتوں میں مداخلت کی گئی، اور بوسٹن کی بندرگاہ پر تمام تجارتی لین دین کو اس وقت تک معطل کر دیا گیا جب تک کہ ذمہ دار ایسٹ انڈیا کمپنی کو معاوضہ ادا نہ کر دیں۔
مورخین آج ان قوانین کو تعزیرات یعنی سزا کے قوانین کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ استعماریت کی حمایت کرنے والوں نے اسے ایک ‘ناقابل برداشت فعل’ قرار دیا۔ دونوں وضاحتیں بہت درست تھیں۔
اگر پارلیمنٹ نے کم سخت ردعمل ظاہر کیا ہوتا تو بوسٹن میں نجی املاک کی تباہی پر بہت سے لوگوں کے غم و غصے کے پیش نظر امریکیوں نے چائے ٹیکس ادائیگی کی مخالفت پر نظر ثانی کی ہوتی۔
آخر کار وہ لوگ جو گریفن ہاربر پر جہازوں پر سوار ہوئے انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔
لیکن لارڈ نارتھ نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
انھوں نے 22 اپریل سنہ 1774 کو ہاؤس آف کامنز کو بتایا کہ ‘نتائج کی فکر کیے بغیر ہمیں یہ خطرہ مول لینا چاہیے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔‘
ٹھیک ایک سال بعد ایک حکومتی اقدام جس کی مسٹر نارتھ کو امید تھی کہ اس سے نتیجہ برطانیہ کے حق میں بدل جائے گا اس نے کنگ جارج سوم کی 13 کالونیوں کو آزادی کے لیے بغاوت پر مجبور کر دیا۔
امریکیوں نے 16 دسمبر کے واقعات کے بارے میں جو بھی سوچا تھا میساچوسٹس پرعائد پابندیوں نے انھیں مزید پریشان کر دیا۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اور رہنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
استعماریت کے حامیوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر برطانیہ کا واحد آپشن طاقت ہے تو ان کے پاس بھی صرف ’مسلح مزاحمت‘ رہ گئی ہے۔ اس کا نفاذ جولائی میں ہوا اور 4 جولائی سنہ 1776 کو آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔
Comments are closed.