سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف کی بلے کا نشان دوسری جماعت کو نہ دینے کی استدعا واپس لینے کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
تحریکِ انصاف کی انتخابات کے دوران جوڈیشل افسران کی تعیناتی سے متعلق درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے سماعت کی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، اٹارنی جنرل اور دیگر کو نوٹسز جاری کر دیے۔
سندھ ہائی کورٹ نے فریقین سے 14 دسمبر کو جواب طلب کر لیا۔
کیس پر سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو بلے کا نشان مل گیا؟
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے جواب دیا کہ انتخابی نشان کے معاملے سے متعلق درخواست اسلام آباد میں دائر کی جائے گی۔
جسٹس عقیل احمد عباسی نے تحریکِ انصاف کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اللّٰہ مالک ہے پریشان نہ ہوں یہ وقت بھی گزر جائے گا، بلے کا نشان واپس لینے کی استدعا کا معاملہ آئندہ سماعت پر دیکھیں گے۔
درخواست گزار پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے عدالت میں کہا کہ آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے لیے ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تقرری کے لیے عدالتی افسران تعینات کیے جائیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ یہ پالیسی کا معاملہ ہے، عدالت اس میں کیسے مداخلت کر سکتی ہے؟ الیکشن کون کروائے یہ بنیادی حقوق کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔
بیرسٹر علی طاہر نے کہا کہ گزشتہ 15 سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حلیم عادل شیخ اور درخواست گزار عدالت کے حکم کے باوجود جیل میں ہے، پیپلز پارٹی کی لگائی ہوئی بیوروکریسی سے غیر جانبداری کی توقع نہیں، آئینِ پاکستان کے تحت ہر سیاسی جماعت کو سرگرمیوں کا حق ہے، ہر پاکستانی شہری اپنی پسند کی ایسوسی ایشن یا جماعت کا رکن ہو سکتا ہے، تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بیرسٹر علی طاہر نے مزید کہا کہ پارٹی کارکنان جیسے ہی اپنے پرچم اور شناخت کے ساتھ نکلتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
جسٹس عقیل احمد عباسی نے استفسار کیا کہ کیا انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے؟
اس سوال پر بیرسٹر علی طاہر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے، انتخابات سے دو ماہ قبل الیکشن کمیشن الیکشن پروگرام دینے کا پابند ہے۔
جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی پروگرام بنتا ہے وہ تو پالیسی میٹر ہو گا، عدالت کچھ نہیں کر سکتی، درخواست دائر کرنے سے پہلے آپ کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن تعاون نہیں کرتا تو پھر عدالت دیکھے گی کیا کرنا ہے۔
Comments are closed.