جمعرات 24؍ربیع الثانی 1445ھ9؍نومبر 2023ء

پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس مل گیا

pti bat

پشاور:ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے  پرحکم امتناع جاری کردیا، عدالتی فیصلے کے مطابق کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا۔

عدالت نے کہا ہے کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں، 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کیے گئے، الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا پھر الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے، الیکشن کمشنر پر اعتراض آگیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے، الیکشن کمیشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر علی گوہر نے درخواست پر دلائل دیے

 بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار ہی نہیں ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو تمام تر دستاویز فراہم کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کا پہلا بڑا نقصان یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو بلا نشان نہیں مل سکے گا، اس فیصلے سے پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکے گی۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ نشان کے بغیر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابات سے باہرکی گئی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کا انتخابی نشان کی فراہمی آئینی حق ہے، دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں کہ جہاں الیکشن کمیشن اپیلیٹ کورٹ بن جا ئے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبرز ہیں اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے درخواست گزار کون تھے۔

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ عام لوگ تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہیں، سول کورٹ میں مناسب ٹرائل کے بغیر ایسے کیسز میں فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمر ایوب سیکریٹری جنرل نہیں اس لیے وہ تعیناتی نہیں کرسکتا، اگر عام انتخابات میں بھی کسی کی تعیناتی غلط ہو تب بھی انتخابات چیلنج نہیں کیے جاسکتے۔

انہوں نے موقف اپنایا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو صرف سپریم کورٹ نکال سکتا ہے،الیکشن کمیشن کمیشن نہیں، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی کے آئین و رولزمیں انٹر پارٹی انتخابات کا کیا طریقہ کار ہے؟بیرسٹرعلی ظفر نے بتایا کہ پارٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ پر ہوگا، رجسٹرڈ ووٹرز ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، انٹراپارٹی انتخابات رولزہم نیبنائے ہیں، ہم ہی اپ ڈیٹ کرینگے، الیکشن کمیشن ڈائریکشن نہیں دے سکتا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہمیں کہا جاتا ہیکہ 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں اوردوسری جانب اعتراض کررہے ہیں، انٹرا پارٹی کے خلاف 14 بندوں نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی، ایک بھی پارٹی ممبر نہیں تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی ممبر شپ کو کوئی ثبوت دیں، اگر انتخابی نشان نہیں ملا تو ہمیں اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 دسمبر اسکروٹنی کا آخری دن ہے، ہمیں نشان الرٹ کیا جائے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پانچ منٹ کا وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کو درخواست دینے والے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کی خلاف درخواست دی تھی۔

جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپ کی بات ختم ہوگئی، اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کونسا اختیار ہے کہ وہ پارٹی سرٹیفیکٹ مسترد کرے۔

نوید اختر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن جرمانہ لگا سکتا ہے، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں، آپ کبھی ایک اور کبھی دوسری بات کرتے ہیں۔جسٹس کامران حیات نے کہا کہ جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کس قانون کے تحت روک رہے ہیں، جس پر نوید اختر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن خود کو مطمئن کرے گا۔

جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ جب چیئرمین اور سیکریٹری ختم ہوجائے تو پھر کیسے انتخابات کرائیں گے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے عبوری ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے دلائل دیے کہ انٹرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دے دیا، جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو پھر پانی سر اوپر گزرا ہوگا۔جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ کیا پھر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر اس کے لیے ڈویژنل بنچ تشکیل دیا جائے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے اور ان کے پاس اختیار ہے۔جسٹس کامران حیات نے کہا کہ آپ بتائیں نا کس قانون کے تحت فیصلہ کیا گیا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے کہا کہ میری بات تحمل سے سن لی جائے، عدالت کی معاونت کروں گا، الیکشن کمیشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو ایسی صورت میں سپریم کورٹ جانا ہوگا۔

جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے تو سارے کاغذات جمع کئے اور آپ نے جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا، اگر کاغذات نہ دیتے اور الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوتا تو تب سپریم کورٹ جاتے۔

جسٹس کامران حیات کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک پارٹی انتخابات کرائے اور تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اسے تسلیم نہ کرے۔جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سادہ بات ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بنچ کا ہے، ان کی استدعا اور انٹرم ریلیف ایک ہی ہے، کیسے آپ حکم امتناع دے سکتے ہیں؟

جسٹس کامران حیات نے کہا کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گے کہ کب ڈویژنل بنچ کو لگے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل پر مشال یوسفزئی ہنس پڑیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں میں مذاق کیے لیے کھڑا ہوں کہ یہ ہنس رہی ہے، آپ انہیں کہیں کہ یہاں سے شٹ آف ہوجائے، جس پر جسٹس کامران حیات نے ہدایت دی کہ بی بی آپ سائید پر بیٹھ جائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ ان کو کیا جلدی ہے، انتخابی نشان الاٹ کرنے میں ابھی تو وقت ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست بیرسٹر ظفر، علی گوہر، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، منیراحمد بلوچ، ظاہرشاہ اور انور تاج نے جمع کروائی ہے، جس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔درخواست میں مقف اپنایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اٹھانا ہی غلط تھا، بلے کا نشان لینا بھی غلط ہے، واپس کیا جائے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرکے بلے کا نشان بحال کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔22 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے 23 نومبر 2023 کو دیے گئے فیصلے میں کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کیا اوہ وہ پی ٹی آئی کے 2019 کے آئین، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہیں۔دریں اثنا، بیرسٹر گوہر نے پشاور ہائی کورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں موسم سرما کی چھٹیاں ہے، سنگل بینچ بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست میں استدعا کی ہے کہ آج ہی کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ سیاسی جماعت کا حق ہے کہ اپنے پارٹی نشان سے الیکشن لڑے۔

بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ اگر ایک پارٹی ایک نشان سے الیکشن نہیں لڑے گی تو 227 مخصوص نشستیں کہاں جائے گی، یہ 25 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کے بعد صدر اور سینٹ کا الیکشن بھی ہونا ہے، ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ تو کیا کچھ بھی نہیں دیا جارہا ہے

 

You might also like

Comments are closed.