پیٹی ہرسٹ: اغوا ہونے والی امیر لڑکی امریکہ کے بدنام مجرموں میں سے ایک کیسے بنی؟
پیٹی ہرسٹ کی 2019 میں لی گئی ایک تصویر
پیٹی ہرسٹ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی 19 سالہ طالبہ تھیں جنھیں فروری 1974 میں اُن کے فلیٹ سے اغوا کر لیا گیا تھا۔
وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھیں اور نا ہی ان کو کسی عام مجرم نے اغوا کیا تھا۔ پیٹی ہرسٹ میڈیا کی بڑی کاروباری سلطنت کے مالک ولیم رینڈولف ہرسٹ کی پوتی تھیں اور ان کے کاروبار کے ایک حصے کی وارث بھی۔
ان کو اغوا کرنے والا گروہ ’سمبیونیز لبریشن آرمی‘ (ایس ایل اے) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اغوا کے دو ماہ بعد پیٹی ایک بار پھر منظر عام پر آئیں مگر وہ منظر عجیب تھا کیونکہ تب وہ اسلحہ سے لیس اپنے اغواکاروں ہی کے ہمراہ ایک بینک کو لوٹ رہی تھیں۔
لیکن یہ حیران کن تبدیلی کیسے آئی؟
پیٹی ہرسٹ کی زندگی پر دستاویزی فلم بنانے والے ڈائریکٹر رابرٹ سٹون کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب ’وہ ٹائم میگزین کے سرورق پر موجود تھی۔ ہر کوئی اس کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔‘
’سب جاننا چاہتے تھے کہ کیا وہ ان کے ساتھ شامل ہو گئی ہیں؟ وہ ہیں کون؟ یہ کافی پراسرار چیز تھی۔‘
واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ویت نام جنگ کے خاتمے کے باوجود امریکی سیاست میں امریکی صدر رچرڈ نکسن واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے خبروں کی زینت بنے ہوئے تھے۔
تاہم ایک امیر خاندان سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی کے اغوا اور اس کے بعد اس کا ’باغی‘ بن جانا زیادہ مشہور ہو گیا۔
پیٹی ہرسٹ
لیزلی جرسا ’دی ٹیکنگ آف پیٹی ہرسٹ‘ فلم کی پروڈیوسر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پیٹی کو اغوا کرنے کے بعد اغواکاروں نے انھیں باندھ کر ایک الماری میں بند کر دیا گیا تھا جہاں وہ 57 دن تک قید رہیں۔ اُن کی مسلسل ذہن سازی کی جاتی رہی، اُن کا ریپ کیا گیا۔‘
سٹون کا کہنا ہے کہ ’ایس ایل اے نامی گروہ خود کو انقلابی کہتا تھا۔‘ بظاہر اس تنظیم کا کہنا تھا کہ وہ صدر نکسن کی آمریت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
جب پیٹی کو اغوا کیا گیا تو پہلے ایس ایل اے نے ان کی رہائی کے بدلے کیلیفورنیا کی عوام کے لیے خوراک کے عطیوں کی شکل میں لاکھوں ڈالرز کا مطالبہ کیا لیکن پیٹی کے والد نے مذاکرات روک دیے۔
لیزلی کا کہنا ہے کہ ’ایس ایل اے نے پیٹی سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ شامل ہو سکتی ہو یا پھر مر سکتی ہو۔‘
’جس پر اُس نے بندوق اٹھائی اور اُن کے ساتھ شامل ہو گئی۔‘
تین اپریل کو پیٹی نے خود اعلان کیا کہ وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہیں اور ان کا نیا نام ’تانیہ‘ ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے اپنے والدین کی مذمت بھی کی۔
کچھ ہی عرصے بعد وہ بینک ڈکیتی کا حصہ بنیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بینک ان کے دوست کے والد کا تھا۔
ایس ایل اے نے پیٹی سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ شامل ہو سکتی ہو یا پھر مر سکتی ہو
بینک ڈکیتی کے بعد پیٹی کے لیے اُن کی زندگی میں واپسی کا راستہ بند ہو گیا۔ اب وہ ایف بی آئی کو مطلوب ایک مشہور مجرمہ بن چکی تھیں۔
لیزلی کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگوں نے اُن سے نفرت شروع کر دی تھی۔‘
اسی دوران ایس ایل اے اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں جرائم پیشہ گروہ کے چھ اراکین ہلاک ہو گئے۔ تانیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھیں تاہم ہلاک ہونے والوں میں ولی ولف بھی شامل تھے جنھوں نے پیٹی کو اغوا کیا تھا۔
ایس ایل اے کے اراکین اور پولیس کے درمیان یہ جھڑپ ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی۔ بعد میں پیٹی نے ولی ولف کی موت پر افسوس کا اظہار کیا تو یہ بات بھی ان کے خلاف گئی۔
تقریبا ایک سال تک پیٹی حکام کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب ہوئیں لیکن 18 ستمبر 1975 کو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف ہبرنیا بینک ڈکیتی کا مقدمہ چلا۔
وہ اس مقدمے کا سامنا کرنے والی ایس ایل اے کی واحد رکن تھیں۔ میڈیا نے اس مقدمے کو ’صدی کا مقدمہ‘ قرار دیا۔
سٹون کا کہنا ہے کہ ’پیٹی کو اس دور میں بائیں بازو کی پرتشدد تحریک کا چہرہ سمجھ لیا گیا تھا۔‘ تاہم لیزلی کا کہنا ہے کہ پیٹی کو جھانسا دیا گیا تھا۔
پیٹی ہرسٹ کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن جیل میں دو سال گزارنے کے بعد ان کی سزا اس وقت کے صدر جمی کارٹر نے ختم کر دی۔
رہائی کے بعد پیٹی نے ایس ایل اے کے خلاف گواہی بھی دی اور صدر بل کلنٹن نے 2001 میں ان کے لیے معافی کا اعلان بھی کیا۔
پیٹی ہرسٹ کے مقدمے کو امریکی ذرائع ابلاغ نے ’صدی کا مقدمہ‘ قرار دیا تھا
پیٹی ہرسٹ کے وکیل نے دفاع میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کی موکلہ کی برین واشنگ کی گئی تھی اور وہ سٹاک ہوم سنڈروم سے متاثرہ تھیں۔
اس وقت یہ اصطلاح زیادہ عام نہیں تھی۔
صرف ایک سال قبل سویڈن میں ایک بینک ڈکیتی کے بعد سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح ایجاد ہوئی تھی جب چار افراد کو بینک ڈکیتی کے دوران یرغمال بنا لیا گیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا یرغمال بنانے والوں سے ایک مثبت رشتہ قائم ہو گیا تھا۔
اسی تعلق کی وضاحت کے لیے سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح ایجاد ہوئی جس کے موجد نیلز بیجوریٹ تصور کیے جاتے ہیں۔
تاہم اس اصطلاح کی وضاحت بعد میں ماہر نفسیات ڈاکٹر فرینک نے کی جن کے مطابق ’پہلے لوگ اچانک کسی خوف کا شکار ہوتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ وہ مرنے والے ہیں۔ پھر ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جس میں ان کو بچوں کی طرح حاجت کے لیے بھی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اس دوران خوراک جیسی معمولی چیز کی فراہمی پر بھی ان میں زندگی کے تحفے کے لیے شکرانے کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ ان کو یرغمال بنانے والے ہی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘
یہ اصطلاح اب بھی استعمال کی جاتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی سائیکولوجسٹ جینیفر وائلڈ کا کہنا ہے کہ ’ایک مثال گھریلو تشدد کی ہے جس میں خاتون تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود اپنے ساتھی پر انحصار کرتی ہے اور غصے کے بجائے اس میں اپنے ساتھی سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔‘
Comments are closed.