لندن: برطانوی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ جنگِ عظیم دوم کی طرز پر پیٹرول، گوشت اور توانائی کی مقررہ مقدار میں فراہمی (راشننگ) کی مدد سے موسمیاتی تغیر سے نمٹا جا سکتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف لِیڈز سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے دنیا بھر کے ممالک کو گرین ہاؤس گیس کا اخراج بڑی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حکومتیں لوگوں پر طویل دورانیے کی پروازوں کی سالانہ تعداد پر حد لگا سکتی ہیں یا کوئی بھی شخص ماہانہ کتنا پیٹرول خرید سکتا ہے اس حد کا تعین کر سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ کاربن ٹیکسز یا کاربن ٹریڈنگ اسکیم جیسی ماضی کی اسکیمیں گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے لیے پیش کی گئیں تھی، جن کے ناکام ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان اسکیموں نے مالداروں کے لیے ایک طریقے سے آلودگی پھیلانے کے لیے راہ ہموار کر دی تھی۔
محققین کی جانب سے پیش کیے گئے مقالے کے مطابق جنگِ عظیم دوم کے درمیان برطانیہ میں اشیاء خورد نوش کی مقررہ مقدار میں فراہمی قابلِ قبول تھی اور جب تک اشیاء کی کمی رہی، برطانویوں کے لیے نہ صرف راشننگ قابلِ قبول تھی بلکہ انہوں نے اس کا خیر مقدم بھی کیا تھا۔
اشیاء خورد و نوش کی مقررہ مقدار میں فراہمی کا یہ عمل جنگ کے ختم ہونے کے نو سال بعد تک جاری رہا۔
تحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر نیتھن ووڈ کا کہنا تھا کہ راشننگ کا خیال صرف موسمیاتی تغیر کو ہی کم نہیں کرے گا بلکہ موجودہ توانائی کے بحران جیسے دیگر سماجی اور سیاسی مسائل سے بھی نمٹنے میں کام آئے گا۔
Comments are closed.