’پوتن کے باورچی‘ جو ’کرائے کے جنگجوؤں‘ کی فوج کی سربراہی کر رہے ہیں
ویگنر کے بانی اور ارب پتی یوگینی پریگوزن
- مصنف, وٹالی شیوچینکو
- عہدہ, بی بی سی مانیٹرنگ
یوکرین پر روس کے حملے میں یوگینی پریگوزِن ایک اہم کردار کے طور پر ابھرے ہیں۔ وہ اس جنگ میں اہم علاقوں پر روسی حملے کی قیادت کرنے والے کرائے کے فوجیوں کی ایک نجی فوج کے انچارج ہیں۔
روس کی جیلوں کے لیے وہ کوئی اجنبی نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی پرائیویٹ فوجی کمپنی ویگنر گروپ کے لیے ہزاروں سزا یافتہ مجرموں کو جیل سے بھرتی کیا۔ اگر یہ قیدی یوکرین میں لڑنے کے لیے تیار ہیں تو ان کے جرائم چاہے کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد روس کی جانب سے یورپ کا بدترین مسلح تصادم شروع کے جانے سے قبل پریگوزن پر امریکی انتخابات میں مداخلت اور افریقہ میں روسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کا الزام تھا۔
آخر اس طرح کی شروعات کرنے والے ایک شخص نے اتنا اثر و رسوخ کیسے حاصل کیا ؟
یوگینی پریگوزِن کے سفر کا آغاز
یوگینی پریگوزن کا تعلق ولادیمیر پوتن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے ہے۔ سنہ 1979 میں انھیں پہلی بار کسی جرم کے لیے سزا سنائی گئی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 18 سال تھی اور انھیں چوری کے الزام میں ڈھائی سال کی سزا سنائی گئی۔
دو سال بعد ڈکیتی اور چوری کے الزام میں انھیں تیرہ سال قید کی سزا سنائی گئی، جن میں سے نو سال یوگینی پریگوزِن نے سلاخوں کے پیچھے گزارے۔
جیل سے رہائی کے بعد پریگوزِن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ہاٹ ڈاگ فروخت کرنے والے سٹالوں کا ایک کاروبار شروع کیا۔ کاروبار اچھا چلا اور چند سال کے اندر 1990 کی دہائی میں، پریگوزِن شہر میں مہنگے ریستوران کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہیں سے انھوں نے سینٹ پیٹرزبرگ اور پھر روس کی اعلیٰ اور طاقتور شخصیات کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کیا۔ پریگوزِن کا ایک ریستوراں، جسے نیو آئی لینڈ کہا جاتا ہے، ایک کشتی تھی جو دریائے نیوا میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر چلتی تھی۔
یوگینی پریگوزن (بائیں) ولادیمیر پوتن کے ساتھ سنہ 2011 میں ایک عشائیے میں
ولادیمیر پوتن کو یہ ریستوران اتنا پسند آیا کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے غیر ملکی مہمانوں کو وہاں لے جانے لگے اور غالباً یہی وہ مقام ہے جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔
پریگوزِن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ولادیمیر پوتن نے دیکھا کہ مجھے معززین کو خود پلیٹس پیش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ جاپانی وزیر اعظم یوشیرو موری کے ساتھ آئے تھے۔‘
یوشیرو موری نے اپریل 2000 میں ولادیمیر پوتن کی حکومت کے بالکل شروع میں سینٹ پیٹرزبرگ کا دورہ کیا تھا۔پوتن نے پریگوزِن پر اتنا بھروسہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ سنہ 2003 میں نیو آئی لینڈ پر انھوں نے اپنی سالگرہ منائی۔
کئی سال بعد، پریگوزِن کی کیٹرنگ کمپنی ’کونکورڈ‘ کو کریملن کو کھانا فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا، جس سے انھیں ’پوتن کے شیف‘ کا لقب ملا۔ پریگوزِن سے وابستہ فرموں نے ملٹری اور سرکاری سکولوں سے کیٹرنگ کے منافع بخش ٹھیکے بھی حاصل کیے۔
ویگنر گروپ
سنہ 2014 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ بات سامنے آنے لگی کہ پریگوزِن کوئی عام تاجر نہیں تھے بلکہ ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے ان کے منسلک ہونے کی بات سامنے آئی۔ سب سے پہلے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں اس نجی فوج کے یوکرین کی افواج سے لڑنے کی اطلاع ملی تھی۔
اسے عام طور پر ’ویگنر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھا۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرائے کے اس گروہ نے بربریت کے لیے خوفناک شہرت حاصل کی۔ ویگنر کے ارکان پر الزام ہے کہ انھوں نے نہ 2017 میں ایک شامی قیدی کو ہتھوڑے سے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کا سر قلم کیا اور پھر اس کے جسم کو آگ لگا دی۔
اگلے سال وسطی افریقی جمہوریہ میں ویگنر کی موجودگی کی تحقیقات کے دوران تین روسی صحافی مارے گئے۔
2022 میں ویگنر پر ایک بار پھر ایک شخص کو اس شبہ میں ہتھوڑے سے قتل کرنے کا الزام لگایا گیا کہ اس نے یوکرین میں گروپ کو ’دھوکہ دیا‘۔
یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے ویگنر کو دہشتگرد گروپ کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد، پریگوزِن نے دعویؤ کیا کہ انھوں نے سیاستدانوں کو خون آلود ہتھوڑا بھیجا تھا۔
برسوں تک پریگوزِن نے ویگنر سے کسی قسم کے روابط رکھنے سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ان لوگوں پر مقدمہ بھی چلایا جنھوں نے مشورہ دیا کہ انھوں نے ایسا کیا لیکن پھر ستمبر 2022 میں پریگوزِن نے کہا کہ انھوں نے 2014 میں گروپ قائم کیا تھا۔
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے ویگنر پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اسے روس میں کام کرنے کی اجازت ہے حالانکہ وہاں کا قانون کرایے کی فوج کی سرگرمیوں پر پابندی لگاتا ہے۔
بوٹس اور ٹرول
ایک اور طریقہ جس سے یوگینی پریگوزِن عالمی سیاست میں شامل ہوئے، وہ بندوق والے فوجیوں کی بجائے ’کی بورڈ‘ والے لوگوں پر انحصار کرنا تھا۔
برسوں سے پریگوزِن پر نام نہاد ’ٹرول فارمز‘ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، جو کریملن کے حق میں خیالات پھیلانے یا پراپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر اکاؤنٹس کا استعمال کرتے تھے۔ ایسی کوششوں کی قیادت سینٹ پیٹرزبرگ میں قائم انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی ’آئی ار اے‘ نے کی، جو سنہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے لیے مشہور ہے۔
ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ مولر، جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روس کے درمیان ملی بھگت کے دعووں کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا گیا تھا، انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’آئی آر اے‘ نے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی جس کا مقصد امریکہ میں سیاسی اور سماجی اختلافات کو ہوا اور بڑھاوا دینا تھا۔
ویگنر سینٹر، کرائے کی فوج کے دفاتر کا ایک بلاک، گزشتہ نومبر میں سینٹ پیٹرزبرگ میں کھولا گیا
مولر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے بعد یہ ٹرمپ کی حمایت اور ان کی انتخابی حریف ہلیری کلنٹن کو بدنام کرنے کی ایک کارروائی میں تبدیل ہوا۔
امریکہ نے سنہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں مداخلت پر ذاتی طور پر ’آئی ار اے‘ اور پریگوزِن پر پابندیاں لگائیں۔
یوکرین ’آئی آر اے‘ کی ڈس انفارمیشن مہمات کا ایک اور بڑا ہدف ہے اور برطانیہ کے مطابق پریگوزِن سے مشتبہ روابط رکھنے والے ’سائبر فوجیوں‘ نے برطانیہ، جنوبی افریقہ اور انڈیا سمیت مختلف ممالک پر حملے کیے ہیں۔
ویگنر کے ساتھ کسی بھی تعلق سے انکار کرنے اور ان لوگوں پر مقدمہ دائر کرنے کے بعد جنھوں نے یہ تجویز کیا کہ وہ ٹرول فیکٹریوں کے پیچھے تھے، پریگوزِن نے فروری 2023 میں دعویٰ کیا کہ آئی آر اے کے تصور اور اسے چلانے والے وہ ہی ہیں۔
یوکرین جنگ
روس کی حکومت براہ راست ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے یوگینی پریگوزن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے
اس سارے عرصے میں پریگوزِن نے اپنی کیٹرنگ کمپنی کونکورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیانات کے ذریعے میڈیا کے ساتھ بات کرتے تھے اور منظر عام پر آنے سے گریز کرنے لگے۔
فروری 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ مہینوں بعد پریگوزِن کی خدمات کی دوبارہ مانگ بڑھ گئی تھی۔ کئی سال تک انکار کرنے کے بعد کہ ویگنر کا وجود بھی تھا، 27 جولائی 2022 کو کریملن کے زیر کنٹرول میڈیا نے اچانک اعتراف کیا کہ یہ گروپ مشرقی یوکرین میں لڑ رہا ہے۔
پریگوزِن نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی پوسٹ کرنا شروع کیں، جو بظاہر یوکرین کے مقبوضہ حصوں میں فلمائی گئی ہیں، جس میں وہاں ویگنر کے کارناموں پر فخر ظاہر کیا گیا۔
اس وقت تک دنیا کی کسی اور پرائیویٹ ملٹری کمپنی کے پاس جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر اور ٹینک سمیت اتنے جنگی سامان تک رسائی نہیں تھی لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ روسی فوج کے ساتھ پریگوزِن کے تعلقات بہت کشیدہ تھے۔
انھوں نے بار بار روس کے اعلیٰ حکام پر تنقید کی، دعویٰ کیا کہ وزارت دفاع نے ویگنر کو گولہ بارود سے محروم کر دیا اور ایک موقع پر وزیر دفاع اور چیف آف جنرل سٹاف پر غداری کا الزام بھی لگایا۔
یوکرین میں متعدد روسی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد، پریگوزِن کو جیلوں سے بھرتی کرنے کی اجازت دی گئی۔ انھوں نے ذاتی طور پر متعدد جیلوں کا دورہ کیا تاکہ سزا یافتہ مجرموں سے وعدہ کیا جا سکے کہ وہ آزاد گھر جا سکیں گے اور یوکرین میں ویگنر کے لیے چھ ماہ کی لڑائی کے بعد، اگر وہ بچ گئے تو ان کی سزاؤں کو ختم کر دیا جائے گا۔
ایک ویڈیو میں انھیں مجرموں سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا ’کیا آپ کے پاس کوئی اور ہے جو آپ کو اس جیل سے نکال سکے، میں آپ کو یہاں سے زندہ نکال سکتا ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
ایک ویڈیو میں یوگینی پریگوزن کو مجرموں سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’کیا آپ کے پاس کوئی اور ہے جو آپ کو اس جیل سے نکال سکے، میں آپ کو یہاں سے زندہ نکال سکتا ہوں‘
کریملن کی ضرورت
برطانیہ کی انٹیلیجنس کا اندازہ ہے کہ ویگنر کے یوکرین میں تعینات کیے گئے تقریباً نصف قیدی یا تو زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں۔
وزارت دفاع کے ساتھ پریگوزِن کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انھیں 2023 کے اوائل میں مزید قیدیوں کو بھرتی کرنے سے روک دیا گیا۔
لیکن کریملن کو دنیا بھر میں غلط معلومات پھیلانے اور فوجی مہم چلانے کے لیے پریگوزِن جیسے شخص کی ضرورت کیوں ہے؟
نجی آپریٹیو کا استعمال روسی حکومت کو انتہائی حساس کارروائیوں میں ملوث ہونے سے تردید کرنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔
روسی حکومت کسی بھی طرح کی شراکت سے انکار کرتے ہوئے پریگوزِن کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
لیکن پریگوزِن اس مقام تک کیسے پہنچے؟ اس بارے میں صحافی الیا زیگلیف، جنھوں نے پریگوزن کی سوانح عمری کا تفصیل سے مطالعہ کیا، کا کہنا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’پریگوزِن نے کبھی بھی گندے کام کرنے سے انکار نہیں کیا۔ ان کے پاس اپنی ساکھ کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک اور وجہ پریگوزِن کا ماضی تھا، پوتن صاف ستھری شہرت یا ساکھ والے لوگوں کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان پر قابو پانا مشکل ہے۔ اس نقطہ نظر سے، پریگوزِن ان کے لیے ایک کام کے آدمی تھے۔‘
سنہ 2011 میں ایک انٹرویو میں پریگوزِن نے کہا تھا کہ ایک بار انھوں نے بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی تھی جس میں مرکزی کردار نے ’بادشاہ کی بادشاہت بچانے میں مدد کی‘ اور پھر اس نے ’حقیقتاً بہادری‘ والے کام کیے۔
پریگوزِن اب روس کے بارے میں اپنے ویژن کو بچانے کے لیے صدر پوتن کی مدد کر رہے ہوں گے لیکن ان کی زندگی کی کہانی شاید ہی بچوں کی پریوں یا بادشاہوں کی کہانی ہو۔
Comments are closed.