الیکٹرک کاریں: کیا آپ بھی اپنی پرانی گاڑی میں بیٹری لگا کر اسے مستقبل کی کار بنا سکتے ہیں؟
- بیتھ ٹمنز
- بزنس رپورٹر، بی بی سی نیوز
آزوالڈ میں ’پیں میکر‘ لگانے کے بعد آپ اسے زیادہ سے زیادہ 40 میل تک چلا سکتے ہیں
سنہ 1953 ماڈل کی یہ سیاہ مورس مائنر کار آزولڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کی عمر کی دیگر گاڑیاں سڑک پر کالا دھواں اگلتی جاتی ہیں تاہم جب سے آزولڈ کے پٹرول انجن کی جگہ ایک الیکٹرک موٹر نصب کی گئی ہے تب سے اس کی چیخ و پکار بند ہو گئی ہے۔
عام دنوں میں کار کے 68 سال پرانے انجن کی آہ و بکا اتنی اونچی ہوتی کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی لیکن اب اگر آپ اسے دریائے ٹیمز کے کنارے بھی چلائیں تو چند چھوٹی چھوٹی آوازوں کے علاوہ صرف ارد گرد کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
الیکٹرک کاروں کا تصور تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور آزولڈ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ یہ گاڑی میتھیو کوئٹر کی ملکیت ہے جو اسے اور اس جیسی دیگر ’پٹرول کی دشمن‘ کاروں کو کباڑ خانے سے بچا کر ان میں نئے الیکٹرک انجن ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے 2017 میں ’لندن الیکٹرک کارز‘ نامی کمپنی شروع کی۔
لندن کے علاقے واکس ہال میں ریل گاڑیوں کی پرانی پٹری کے ساتھ بنی ہوئی ایک ورکشاپ میں وہ کلاسک کاروں کے پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والے پرانے انجن نکال کر ان میں بیٹریاں اور بجلی کی موٹریں لگاتے ہیں۔
یہ پرزے عام طور پر ایسی گاڑیوں سے حاصل کیے جاتے ہیں جو حادثوں کا شکار ہوتی ہیں، مثلاً نسان لیف یا ٹیسلا۔ یہ عموماً ایسی گاڑیاں ہوتی ہیں جو کہ انشورنس کمپنیوں کی جانب سے ناقابل استعمال قرار دے دی جا چکی ہوتی ہیں تاہم ان کے انجن یا بیٹری بالکل صحیح حالت میں ہوتے ہیں۔
میتھیو کوئٹر کے مطابق یہ کاروں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے یا ریسائکلنگ کا بہترین طریقہ ہے۔
لندن الیکٹرک عموماً نسان لیف اور ٹیسلا کی کاریں استعمال کرتی ہے
ان کی کمپنی کسی بھی کار کو الیکٹریک کرنے کے 20 ہزار پاؤنڈ (تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے) لیتی ہے، اس لیے یہ کام سستا قتعاً نہیں تاہم کمپنی کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ یہ کام پانچ ہزار پاؤنڈ میں کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس وقت اگر کوئی برطانوی شہری الیکٹرک کار خریدتا ہے تو اسے حکومت کی جانب سے 2500 پاؤنڈ کی رعائیت ملتی ہے۔
میتھیو کے مطابق پرانی پٹرول اور ڈیزل کاروں کو کباڑ خانے میں ڈالنے سے کئی ہزار پاؤنڈ کا زیاں ہوتا ہے اور حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی اس عمل کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
’حکومت کو چاہیے کہ وہ پرانی گاڑیوں کی الیکٹرک کرنے کے عمل کو سستا اور آسان بنائے تاکہ ہم اس خام مال (حادثے کا شکار ہونے والی کاروں کے پرزوں) کو استعمال میں لا سکیں جو دن بدن مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔‘
میتھو کوئٹر ان دنوں ایک دیو ھیکل لنکن کانٹینینٹل میں بڑی بیٹری لگانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں
سٹیو ڈرمنڈ بھی برطانیہ کے شہر آکسفورڈ میں ’الیکٹروجینک‘ کے نام سے ایک کمپنی چلاتے ہیں۔
ان کے مطابق ’نئی گاڑی خریدنا بہت پرکشش اور آسان ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ اس کا انجن تبدیل کر کے اس کی زندگی بڑھانے کے بجائے آپ اپنی پرانی گاڑی ضائع کر رہے ہیں۔‘
محکمہ ٹرانسپورٹ کی ایک ترجمان کے مطابق محمکہ اس مسئلے پر غور کر رہا ہے۔ ’پرانی کاروں میں بیٹریاں نصب کرنے کے لیے مارکیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم سفر کو ماحول دوست بنانے کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پرانی کاروں کی الیکٹرک کنورژن کے کوئی فوائد نہیں کیونکہ جنوری 1981 سے قبل بننے والی کاروں کو روڈ ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اس لیے کئی لوگوں کے لیے اپنی پرانی گاڑیوں کو دوبارہ استعمال کرنا ایک منفع بخش سودا ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پرانی کاروں کی انشورنس کروانا بھی قدرے آسان ہے اور نئی کاروں کے مقابلے میں سستا بھی ہے۔ تاہم خیال رہے کہ اگر آپ انشورنس کمپنی کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ کی پرانی کار میں اب ایک جدید ٹیسلا انجن لگا ہوا ہے تو اس سے انشورنس بڑھ سکتی ہے۔
سٹیو ڈرمنڈ کے بقول پرانی گاڑیوں کو کباڑ خانے بھیج دینا پاگل پن ہے
اس عمل کے مالی فوائد ایک طرف لیکن یہ بات طے ہے کہ نئی الیکٹرک کار بنانے کی نسبت پرانی گاڑی کو الیکٹرک کرنے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہوتا ہے۔
حکومتی امداد سے قائم زیمو پارٹنرشِپ نامی تنظیم کے مطابق مکمل طور پر بجلی پر چلنے والی نئی کار اپنی پوری زندگی میں اوسطاً 18 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتی ہے، جس کا 46 فیصد اس وقت خارج ہوتا ہے جب یہ کار بنائی جا رہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پیٹرول پر چلنے والی عام کار 24 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتی ہے۔
میتھیو کوئٹر کے بقول ایک پرانی کار کو الیکٹرک کار میں تبدیل کرنے میں تین سے چھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے بشرطیکہ میتھیو اس خاص ماڈل کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے کا تجربہ رکھتے ہوں اور اپنے گاہک کی تمام فرمائشوں کا لحاظ بھی رکھیں۔
مسٹر کوئٹر نے بتایا کہ ان کی کمپنی کا دائرہ کار 40 میل تک ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جتنی گاڑی ایک ہفتے میں چلاتے ہیں اتنی لندن میں رہنے والے لوگ ایک دن میں چلاتے ہیں اور مسٹر کوئٹر کا بیٹری چارج کرنے پر صرف ایک پاؤنڈ خرچ ہوتا ہے۔
لیکن وہ بتاتے ہیں کہ کچھ کلاسک کاریں ایسی ہوتی ہیں جنھیں الیکٹرک میں تبدیل کرنا آسان ہوتا ہے۔ مثلاً ایسٹن مارٹن کاروں کو الکیٹرک میں بدلنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کی ہلکی اور نرم ساخت کی وجہ سے ’ابھی تک اتنے اچھے طریقے سے الیکٹرک نہیں بنایا جا سکتا۔‘ اس کے مقابلے میں بینٹلی اور رولز رائس ایسی کلاسک کاریں ہیں ’جو بنی ہی الیکٹرک کے لیے ہیں کیونکہ یہ کاریں بڑے آرام آرام سے چلتی ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیے
اس طرح وہ لوگ جن کے پاس کھلی چھت والی پرانی جیگوار کاریں ہیں وہ الیکٹرک کرانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کاروں سے دھواں بہت نکلتا ہے۔
مسٹر ڈرمنڈ بھی کہتے ہیں کہ پرانی مِنی اور لینڈ روور کاروں کو الیکٹرک کاروں میں تبدیل کرنا سب سے سستا ہے۔
مسٹر ڈرمنڈ کو کاروں کا بہت شوق ہے اور ان کی پہلی ملازمت برطانیہ کے گاڑیوں کے عجائب گھر ،نیشنل موٹر میوزیم کے ساتھ تھی جہاں وہ کچن وغیرہ کی صفائی کا کام کرتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اب تک انھوں نے جن منصوبوں پر کام کیا ہے انھیں سب سے زیادہ مزا اس وقت آیا جب انھوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ ایک پرانی مورگن سپورٹس کار کو الیکٹرک میں تبدیل کیا۔
اور آج کل ان کی کمپنی گلاسٹنبری کے مشہور میلے میں آنے والی تمام لینڈ روور کاروں کو بجلی سے چلنے والی کاروں میں تبدیل کر رہے ہیں۔
کلاسک کاروں میں نئی بیٹری اور انجن ڈالتے ہوئے ان کے ڈیش بورڈ وغیرہ کو اصلی حالت میں برقرار رکھا جاتا ہے
وہ کہتے ہیں کہ ’ ہم یہ تمام کاریں استعمال کرنے کے لیے بنا رہے ہیں محض ان کو بچانے کے لیے نہیں۔ پیٹرول سے چلنے والی اکثر کلاسک کاریں لوگوں نے محض گھروں میں کھڑی کی ہوئی ہیں، لیکن اب ہم ان میں تبدیلی کر کے اس قابل بنا رہے ہیں کہ لوگ انھیں دور تک لے جا سکیں تاکہ ان تک لوگوں کی رسائی آسان ہو جائے۔‘
’وہ لوگ جنھیں انجن کے چنگھاڑنے کی زوردار آواز بہت پسند ہے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور نئے زمانے کو دیکھیں۔‘
لیکن کلاسک کاروں کے کچھ شوقین ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک کلاسک کاروں کو الیکٹرک میں تبدیل کرنا ان قدیم کاروں کی بے حرمتی ہے۔
قدیم و تاریخی گاڑیوں کے شوقین اور فیڈریشن آف برٹش ہِسٹورِک وھیکل کلب کے ڈائریکٹر وین سکاٹ کے بقول ’میں لوگوں پر اپنی رائے نہیں ٹھونسوں گا کہ وہ اپنی پرانی کاروں کا کیا کریں، (لیکن) میں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ ان کاروں کو (الیکٹرک میں) بدلنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ اس کے اثرات ہمارے (قومی) اثاثے پر کیا ہوں گے۔‘
کوئی بھی کار چلانے میں ’انجن کی آواز کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور (ہر انجن کی اپنی) ایک مخصوص آواز ہوتی ہے۔ اس کی جگہ کوئی نئی چیز لگا دینا ایسا ہی جیسے (مشہور میوزک بینڈ) رولنگ سٹونز کے گانے کو کیسیو کے جدید کیبورڈ پر بجانا شروع کر دیں اور لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ یہ گانا بھی اتنا ہی اچھا ہے۔‘
وین سکاٹ کہتے ہیں کہ کلاسک کاروں سے وہی آواز نکلنی چاہیے جس کے لیے وہ بنائی جاتی ہیں
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وین سکاٹ کہتے ہیں کہ اگر ان کی پرانی ٹرائمف ٹی آر بی کے چار لیٹر کے انجن کو تبدیل کر کے اس میں بجلی کی موٹر لگا دیں تو ’اس کے آگ اگلتے اور غراتے ہوئے انجن کی اس آواز کی جگہ جسے دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے، اس کی جگہ آپ کو ایک پرانی، ہچکولے کھاتی ہوئی کھٹارہ کار کی آواز سننے کو ملے گی۔‘
برطانیہ کے محکمۂ ٹرانسپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پائی جانے والی تمام گاڑیاں جتنا فاصلہ طے کرتی ہیں اس میں کلاسک کاروں کا حصہ صرف اعشاریہ دو پانچ فیصد ہے، یعنی نہ ہونے کے برابر۔ اسے لیے مسٹر سکاٹ کہتے ہیں کہ ماحولیات کے نقطہ نظر سے کلاسک کاروں کو الیکٹرک کاروں میں تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن پرتعیش کلاسک کاروں کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے والی کمپنی لوناز کے مالک ڈیوڈ لورنز کہتے ہیں کہ کلاسک کاروں کی صنعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ان کاروں کو جدید دور کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کر سکتے ہیں تاکہ ماحول پر اس کے کوئی مضر اثرات نہ ہوں۔
مشہور کھلاڑی ڈیوڈ بیکہم ان کی کمپنی میں سرمایہ کاری کر چکے ہیں اور یہ کمپنی الیکٹرک رولز رائس بنانے کے لیے پانچ لاکھ پاؤنڈ لیتی ہے۔
ڈیوڈ بیکہم کہتے ہیں کہ کلاسک کاروں کو الیکٹرک میں بدلنا ’برطانوی مہارت کی بہترین مثال ہے‘
مسٹر سلورنز کہتے ہیں کہ ’زیادہ ماحول دوست اقدامات کے لیے عالمی سطح پر جتنا زور دیا جا رہا ہے اس سے یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب اپنے رویے تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
اس میں ’کوئی شک نہیں کہ (کلاسک) کاریں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور انھیں معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے اور نوجوان نسل نہ صرف اثاثے کو محفوظ کرنا چاہتی ہے بلکہ یہ نوجوان ان کاروں کو الیکٹرک کاروں میں تبدیل کر کے اس روایت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
Comments are closed.