پاک افغان کرکٹ ’دوستی‘ اور چہ میگوئیاں، سمیع چوہدری کا کالم
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
سیاسی و سفارتی محاذ کی تُند خُوئی کے بعد اب کرکٹ کے میدان میں بھی پاکستان اور افغانستان مدِ مقابل ہوا چاہتے ہیں۔ پاک افغان کرکٹ ’دوستی‘ کی مختصر سی تاریخ میں یہ دونوں ٹیموں کے مابین پہلی باقاعدہ دو طرفہ سیریز ہے۔
پاک افغان کرکٹ کو پنپنے کے لیے پاکستان انڈیا تعلقات کی دہائیوں پرانی تلخ تاریخ درکار نہیں ہوئی۔ ابھی تک ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے سوا شاذ ہی کہیں پاکستان اور افغانستان سامنے آئے ہیں مگر افغان کرکٹرز نجانے کیوں اپنی قابلیت پاکستان کو پچھاڑنے سے مشروط کر چکے ہیں، یہاں تک کہ اصغر افغان اسی دکھ میں آبدیدہ ہو کر ریٹائر ہو گئے کہ وہ کبھی پاکستان کو ہرا نہ پائے۔
اور پھر پچھلے ہی سال پاک افغان کرکٹ کے رشتے کا کٹھور پن شارجہ سٹیڈیم میں بھرپور جوبن پر نظر آیا جب نسیم شاہ کے چھکوں نے نہ صرف کروڑوں پاکستانیوں کے دل جیت لیے بلکہ بے شمار افغانوں کے جذبات بھی مجروح کیے اور نتیجتاً شارجہ سٹیڈیم بھی میدانِ جنگ بن گیا۔
اب کی بار اماراتی حکومت اس ناقابلِ توجیہہ کرکٹنگ رقابت کی حساسیت سے باخبر ہے اور دونوں اطراف کے شائقین کو محفوظ فاصلے پر نشستیں فراہم کی جائیں گی۔ ممکنہ خرافات سے بچنے کو، ہلڑ بازی کرنے والوں کے خلاف کڑی کاروائی کی تنبیہہ بھی کی جا چکی ہے۔
اس سب غوغا کے بیچ اگر کرکٹ مرکزی اہمیت حاصل کر پائی تو بہرحال یہاں بہترین مسابقتی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ افغان ٹیم بہت کم وقت میں وہ مرتبہ حاصل کر چکی ہے کہ تگڑی ٹیمیں بھی اس کے مقابل اترتے وقت اگر خوف نہیں تو بھی احتیاط سے ضرور لبریز ہوتی ہیں۔
نسیم شاہ کے چھکوں نے نہ صرف کروڑوں پاکستانیوں کے دل جیت لیے بلکہ بے شمار افغانوں کے جذبات بھی مجروح کیے اور نتیجتاً شارجہ سٹیڈیم بھی میدانِ جنگ بن گیا
راشد خان گلوبل سپرسٹار ہیں اور چند ہی روز پہلے لاہور میں اپنے پی ایس ایل ٹائٹل کا کامیاب دفاع کر چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنے مصروف تر کیلنڈر کے پیشِ نظر سینیئر کھلاڑیوں کو آرام دے کر جن نئے چہروں کو موقع دیا، راشد خان پی ایس ایل کے دوران ان سب سے بھی خوب شناسائی پا چکے ہیں۔
شاداب خان پی ایس ایل میں ایک جارح مزاج کپتان کے طور پر ابھرے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ آسٹریلوی رنگ ہے جو نتائج سے زیادہ اہمیت اپنی اپروچ کو دیتا ہے۔ شاداب ایسے کپتان نہیں کہ ہار کے ڈر سے اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنے لگیں۔
افغان ٹیم اپنی بھرپور قوت سے میدان میں اترے گی اور محمد نبی بھی کم بیک کریں گے۔ ان کنڈیشنز میں سپنرز سے نمٹنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے اور افغان سپن اٹیک میں وہ چالاکی اور پُھرتی موجود ہے کہ نوآموز پاکستانی بلے بازوں کو حیرت میں ڈال سکے۔
سمیع چوہدری کے دیگر کالم پڑھیے:
پاکستان کے لیے کچھ مسائل پردے کے پیچھے بھی چلتے آ رہے ہیں۔ بابر اعظم کو آرام دیے جانے کے گرد منڈلاتے کچھ سازشی منصوبے بعض مبصرین پر اس قدر حاوی ہوئے کہ ٹیم میں نئی دھڑے بندیوں کی کوڑیاں لائی گئیں اور اس سارے قضیے کو سیاسی رنگ دیا گیا۔
جبکہ زمینی حقائق یہی بتلاتے ہیں کہ پی ایس ایل کے بعد پوری ٹیم کو ہی نیوزی لینڈ کی آمد تک آرام دیا جانا تھا مگر نجم سیٹھی نے چیئرمین بنتے ہی اپنی ڈپلومیسی جگائی اور آسٹریلیا کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد افغان کرکٹ بورڈ کے گھٹتے سرمائے کو تقویت دینے کے لیے اس ٹی ٹونٹی سیریز کی تفصیلات طے کیں۔
پاکستان کرکٹ کی جانب سے یہ پیشرفت نہایت مثبت اقدام ہے کہ بڑی مدت کے بعد صفِ اوّل کے کھلاڑیوں کو آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا اور صحیح معنوں میں بینچ کی قوت تیار کرنے کا آغاز ہوا ہے۔
شاداب خان مختصر فارمیٹ میں اپنی قیادت کے جوہر دکھا چکے ہیں اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے ڈریسنگ روم سے حاصل کردہ تجربے کو استعمال میں لا کر ان نئے چہروں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
سیریز کا نتیجہ کچھ بھی ہو، پاکستانی شائقین اور مبصرین کو بہرحال اطمینان رکھنا چاہیے کہ ضروری نہیں اس نتیجے سے ٹیم میں کوئی سیاست ہی جنم لے۔ اگر پاکستان کو اپنا مصروف کیلنڈر انجریز کے سائے سے بچا کے چلنا ہے تو ایک سیکنڈ الیون ترتیب دیے رکھنا ضروری ہے۔ بالآخر ہر چیز تو بابر اعظم کے بارے میں نہیں۔
Comments are closed.