ذیابطیس کووڈ سے بڑی عالمی وبا ہے جو کہ پاکستان جیسے غریب ممالک میں کورونا وائرس سے زیادہ افراد کی جان لے رہی ہے، پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد دو کروڑ سے زائد ہے جبکہ تقریباً دو کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ ذیابطیس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت نے پاکستان اینڈوکرائین سوسائٹی اور ڈسکورنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں 200 سے زائد ڈائبیٹیز کلینکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب کا انعقاد پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی، ڈسکورنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ افراد کو اپنے ذیابطیس میں مبتلا ہونے کے بارے میں علم ہی نہیں اور انہیں اپنی بیماری کا علم اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے ایسے مریضوں کی بروقت تشخیص کے لیے مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے ساتھ مل کر ڈسکورنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ شروع کیا ہے، اس پروجیکٹ کے تحت ایک مفت ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جہاں پر فون کرکے ذیابطیس کے خطرے سے دوچار افراد رہنمائی اور فری ٹیسٹنگ سمیت تشخیص کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی سے وابسطہ معروف ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابطیس میں مبتلا غیر تشخیص شدہ دو کروڑ افراد میں کئی ہزار بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، جنہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اپنے طرز زندگی کے باعث ذیابیطس جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنی کھانے پینے کی عادات اور طرز زندگی کو بدلیں، ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناتے ہوئے اپنے معمولات تبدیل کریں تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔
جناح اسپتال سے وابستہ معروف اینڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر عروج لعل رحمن کا کہنا تھا کہ 40 سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد جن کے خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص ذیابطیس میں مبتلا ہے انہیں کسی علامت کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے جلد از جلد اپنی شوگر چیک کروانی چاہیے تاکہ انہیں اس بیماری کی پیچیدگیوں اور مہلک اثرات سے بچایا جا سکے۔
ڈسکورنگ ڈائیبٹیز پروجیکٹ کے انچارج اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے دو تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 2045 تک دس کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے پاکستان میں ذیابطیس کے مرض کو کنٹرول کرنے کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت اس مرض کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کا کام شروع کیا جا رہا ہے، وہ لوگ جو چالیس سال سے زیادہ عمر کے ہیں، موٹاپے کا شکار ہیں اور ان کے خاندان میں کسی فرد کو یہ مرض لاحق ہے، انہیں ڈسکورنگ ڈائیبیٹیز پروجیکٹ کے تحت مفت ٹیسٹنگ، تشخیص اور علاج کی سہولتیں فراہم کرنے جا رہے ہیں، ڈسکورنگ ڈائیبیٹیز کو ایک این جی او بنانے جا رہے ہیں تاکہ عوام ڈاکٹرز اور حکومت مل کر اس مرض پر مشترکہ طور پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر سکیں۔
مقامی فارماسوٹیکل کمپنی فارم ایوو کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے اور یہ پروجیکٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
Comments are closed.