best totally free hookup app arduino led hookups hookup by tinder hookup Birmingham

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستانی طلبہ کو یوکرین چھوڑنے کی ہدایت: ’لاکھوں خرچ کیے، پاکستان واپسی مستقبل تباہ کر سکتی ہے‘

روس، یوکرین کشیدگی: یوکرین میں موجود پاکستانی طلبہ کو جلد از جلد وطن واپس لوٹنے کی ہدایت

  • محمد زبیر خان
  • صحافی

یوکرین کے شہر کارکف کے قریب روس کی سرحد کا منظر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

یوکرین کے شہر کارکف کے قریب روس کی سرحد کا منظر

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کے دوران یوکرین کے ڈونباس خطے میں ’فوجی آپریشن‘ کا اعلان کرتے ہوئے یوکرینی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

اس اعلان سے قبل ہی یوکرین کی پارلیمان نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی جبکہ وہاں موجود کئی پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں مجبوری میں وطن واپسی کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔

گذشتہ روز یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ریٹائرڈ) نول اسرائیل کھوکھر اور یوکرین میں موجود پاکستانی طلبہ کے درمیان ایک زوم میٹنگ ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں تقریباً 40 پاکستانی طلبہ نے شرکت کی جو یوکرین کے مختلف شہروں اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔

اس میٹنگ میں میجر جنرل (ر) نول اسرائیل کھوکھر نے طلبہ سے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے طلبہ کو ہدایت ہے کہ وہ کشیدگی کے پیش نظر جلد از جلد واپس پاکستان لوٹ جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا ’جو طالب علم اپنی کسی ذمہ داری کی وجہ سے وطن واپس نہیں جائیں گے، سفارت خانہ انھیں ہر قسم کی مدد فراہم کرتا رہے گا۔‘

اس میٹنگ کے ایک دن بعد ہی روس کے صدر نے یوکرین میں فوجی آپریشن کا اعلان کر دیا ہے۔

پاکستانی سفارتخانے نے یوکرین کی وزارت تعلیم اور سائنس کو ایک خط کے ذریعے بتایا ہے کہ اس نے پاکستانی شہریوں بالخصوص طالب علموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عارضی طور پر یوکرین چھوڑ دیں۔

اس خط کے ذریعے یوکرین کے حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی طالب علموں کو رواں سمسٹر کے دوران جون تک آن لائن تعلیم فراہم کی جائے یا اس وقت تک جب تک یوکرین میں صورتحال دوبارہ معمول کے مطابق نہیں آ جاتی ہے۔

اسی طرح سفارتخانے نے ایک اور خط کے ذریعے پاکستانی طالب علموں، جو کہ ابھی پاکستان سے یوکرین نہیں پہنچے ہیں مگر ان کے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے ہو چکے ہیں، کو ہدایت کی ہے کہ وہ حالات کی بہتری تک پاکستان میں ہی رہیں۔

یوکرین میں کتنے پاکستانی طالب علم موجود ہیں، یہ تعداد ابھی واضح نہیں ہے۔ تاہم یوکرین میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے رہنماؤں کے مطابق یہ تعداد تین ہزار کے قریب ہو سکتی ہے۔ سفارتخانے نے یوکرین میں موجود پاکستانی طلبہ سے خود کو سفارتخانے میں رجسڑ کروانے کی بھی ہدایت کی ہے۔

واضح رہے لگ بھگ ایک ہفتہ قبل میجر جنرل (ر) نول اسرائیل نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستانی طالب علموں کو یوکرین میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

بی بی سی نے یوکرین میں موجود چند پاکستانی طلبہ سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے صورتحال کے پیش نظر پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف چند ایک طلبہ، جن کی اکثریت فورتھ اور فائنل ایئر میں ہے، نے صورتحال کا مزید جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

طالب علموں نے میٹنگ کے دوران سفارت خانے سے آسان روٹ کے علاوہ سستے ٹکٹوں کے حصول میں مدد طلب کی ہے۔

’لاکھوں روپے خرچ کر کے آئے تھے‘

یوکرین کے دارالحکومت کئیو میں موجود فرسٹ ایئر میڈیکل کے طالبعلم جواد حفیظ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں یوکرین آئے ہوئے چند ہفتے ہی ہوئے ہیں۔ ’یوکرین آنے کے لیے داخلہ فیس، ہاسٹل فیس، ویزہ فیس اور اخراجات کی مد میں والدین نے لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یوکرین میں تعلیم کے لیے آنے والے اکثر طلبہ کا تعلق متوسط خاندانوں سے ہے، جن کی اکثریت بہت سے خواب سجا کر اچھے مسقبل کے لیے یہاں کا رُخ کیا۔ ان کے مطابق گذشتہ برسوں میں پاکستان سے زیادہ طلبہ یوکرین کا رُخ نہیں کرتے تھے مگر اس سال بہت بڑی تعداد پاکستان سے آئی ہے مگر دوسری جانب یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں تناؤ کے باوجود تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں اور تعلیمی سلسلہ جاری ہے۔

’چند دن قبل جب پاکستانی سفارتخانے نے کہا کہ ہم اگلی ہدایات تک تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں تو ہمیں خوشی ہوئی تھی مگر اب کہا جا رہا ہے کہ ہم یوکرین چھوڑ دیں تو ہمیں مجبوری میں یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔‘

جواد حفیظ کے مطابق ’ہمیں پتا نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں یوکرین میں کیا حالات ہوں گے۔ مگر ہم توقع کرتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے، کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہو گی۔ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے۔‘

انھیں امید ہے کہ وہ واپس آ کر دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کر سکیں گے۔

چوہدری موسیٰ

،تصویر کا ذریعہChaudhry Musa

،تصویر کا کیپشن

چوہدری موسیٰ: ‘میرے پریکٹیکل جاری ہیں، یہ پریکٹیکل ہسپتال ہی میں ہو سکتے ہیں۔ اب اگر میں چھوڑ کر جاتا ہوں تو میرے چار سال کی محنت ضائع ہونے کا خدشہ ہے‘

’پاکستان واپسی مستقبل تباہ کر سکتی ہے‘

چوہدری محمد موسیٰ خان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ روس کی سرحد سے قریب واقع شہر کارکف کی میڈیکل یونیورسٹی میں فورتھ ایئر کے طالب علم ہیں۔

اس یونیورسٹی میں تقریباً سو پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ خیال رہے کہ جنگ کی صورت میں یہ شہر بہت جلد متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سرحد کے قریب ہے۔

مگر موسیٰ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان لوٹنے کا فیصلہ فی الحال نہیں کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری یونیورسٹی اور چند ایک طالب علم جو ہمارے ہی شہر میں دوسرے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں وہ واپس جا رہے ہیں۔ مگر میں نے اور میرے ساتھ چند طلبہ نے فیصلہ کیا ہے ہم کچھ دیر اور انتظار کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی یونیورسٹی کھلی ہوئی ہے۔ ’میرے پریکٹیکل جاری ہیں۔ یہ پریکٹیکل ہسپتال ہی میں ہو سکتے ہیں۔ اب اگر میں چھوڑ کر جاتا ہوں تو میرے چار سال کی محنت ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا انجینیئرنگ کے طالب علموں کو بھی ہے۔‘

موسیٰ کے مطابق انھیں پاکستانی سفارتخانے نے کہا ہے کہ اگر کوئی نہ جانے کا فیصلہ کرے گا تو سفارتخانہ آنے والے دنوں میں ان کو بھی اپنی معاونت فراہم کرتا رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سفارت خانے کی اس یقین دہانی کے بعد ہم چند طالب علموں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر باقی طلبہ واپس جانا بھی چاہیں تو شاید ان کا اتنا نقصان نہ ہو مگر پروفیشنل تعلیمی اداروں کے فورتھ اور فائنل ایئر کے طالب علم چلے گئے تو وہ نہ آگے کے رہیں گے نہ پیچھے کے۔ اس لیے ہم کچھ دن اور صورتحال کا جائزہ لیں گے۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے شہر میں صورتحال اب کچھ زیادہ نارمل نہیں ہے اور ’لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔‘

’سپر مارکیٹوں میں ضروری سامان کم پڑتا ہے تو تھوڑی دیر میں اس کی سپلائی پھر بحال ہو جاتی ہے۔ لوگ خدشے کے پیش نظر اشیا خورد و نوش کو اپنے گھروں میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پینے کا پانی بھی لوگ اپنے گھروں میں سٹور کر رہے ہیں۔

’گذشتہ دونوں یوکرین کی حکومت نے اسلحے کی فروخت پر عائد کردہ پابندی ہٹا دی تھی، جس کے بعد لوگوں نے بے تحاشہ اسلحہ خریدا۔ ابھی بھی خریداری جاری ہے۔۔۔ لوگ آنے والے دنوں میں کسی خدشے کی بنیاد پر اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ خرید رہے ہیں۔‘

موسیٰ مزید بتاتے ہیں کہ شہر کے ہسپتالوں میں عملہ، انتظامیہ اور پولیس سب الرٹ ہیں۔ ’لوگ مارکیٹوں میں نکل رہے ہیں۔ کام کاج بھی کر رہے ہیں۔ بے چینی فطرتی بات ہے مگر خوف زیادہ نظر نہیں آیا۔ لوگ شہر کو نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ بس لوگ خود کو آنے والے کسی بھی ممکنہ حالات کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے روس کی فوج سامنے ہی کھڑی ہے۔‘

کامران شاہ

،تصویر کا ذریعہKamran Shah

،تصویر کا کیپشن

کامران شاہ: ’جنگ کی صورت میں بھی متاثرہ علاقہ ہم سے بہت دور ہے۔ ویسے بھی تعلیم کے اس مرحلے پر چھوڑ کر جانے سے ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے‘

’اس وقت پروازوں پر رش ہے‘

افتخار خان خٹک پیشے کے لحاظ سے قانون دان ہیں اور وہ یوکرین اور پاکستان کے درمیان تجارت اور دوستی کے لیے قائم تنظیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی طالب علموں کو واپسی میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں آنے والے طالب علموں کا عارضی رہائشی سرٹیفیکٹ نہیں بنا ہو گا اور یہ تیار ہونے میں، دو، تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ ’ایسے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ فی الفور یوکرین کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کر کے وہ سرٹیفیکٹ حاصل کر لیں۔ یہ سرٹیفیکٹ انھیں واپس یوکرین آنے میں بہت مدد فراہم کرے گا۔‘

افتخار خان خٹک کے مطابق اگر زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی طلبہ کے پاس عارضی رہائشی سرٹیفیکٹ نہیں ہے تو وہ اپنے کنسلٹنٹ سے رجوع کریں۔

افتخار خان خٹک کے مطابق اس وقت مختلف پروازوں پر بہت زیادہ رش ہے اور اس وجہ سے کرایوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ ’ہو سکتا ہے کہ طالب علموں کو واپسی کے کرایوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ وہ اپنی بُکنگ جلد از جلد کر لیں تاکہ مسائل سے بچا جا سکے۔‘

یوکرین میں پاکستانی بلاگر اور انجنیئرنگ میں چوتھے سال کے طالب علم سید کامران شاہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ جلد واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ’جنگ کی صورت میں بھی متاثرہ علاقہ ہم سے بہت دور ہے۔ ویسے بھی تعلیم کے اس مرحلے پر چھوڑ کر جانے سے ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی طالب علموں کو واپسی کے سفر میں اپنا روٹ بھی چیک کرنا ہو گا۔ ’زیادہ تر لوگ ترکی کی ایئر لائنز کے ذریعے سے ترکی اور پھر پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔ واپسی کا ارادہ کرنے والوں کو چاہیے وہ فی الفور ایسے روٹ پر اپنی بکنگ کروا لیں جہاں پر ابھی زیادہ رش نہیں ہوا۔ اس طرح انھیں ٹکٹ سستے ملیں گے۔‘

سید کامران شاہ کے مطابق اکثریت تعلیمی اداروں کی جانب سے غیر ملکی طلبہ کی واپسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ واپسی کے لیے طلبہ کو اپنے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا اور آن لائن کلاسوں کا طریقہ کار طے کرنا ہو گا تاکہ وہ پاکستان میں ہی تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.