بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی صدر پوتن کے سخت سوالات پر انٹیلیجنس سربراہ کی زبان لڑکھڑا گئی

روس، یوکرین تنازع: صدر ولادیمیر پوتن کے سخت سوالات پر روسی انٹیلیجنس سربراہ کی زبان لڑکھڑا گئی

یوکرین، روس، پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین پر روس کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈونیسک اور لوہانسک کے خطوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کر کے روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے۔

اس معاملے پر روسی صدر کا مؤقف کتنا سخت ہے، اس کی ایک جھلک پیر کو ایک اجلاس میں نظر آئی جس میں کئی اعلیٰ روسی حکام موجود تھے۔

جب اس اجلاس میں انٹیلیجنس کے سربراہ نے ڈونیسک اور لوہانسک پر مشورہ دینا شروع کیا تو پوتن نے اُنھیں خاموش کروا دیا۔

پوتن کا رویہ اس پر ایسا تھا کہ جواب دیتے دیتے انٹیلیجنس سربراہ بھی ہچکچانے لگے۔

یہ پورا واقعہ ٹی وی پر براہِ راست نشر ہوا اور اب یہ ویڈیو اب پوری دنیا میں وائرل ہو رہی ہے۔

‘کھل کر کہیں جو کہنا ہے’

اجلاس کے دوران پوتن کو دیکھا گیا کہ وہ روس کے غیر ملکی انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ سرگئی نیریشکن کو کہتے ہیں کہ ‘اِدھر اُدھر کی بات کیے بغیر سیدھا جواب دیں۔’

ویڈیو میں سرگئی کہتے ہیں کہ ‘ہم نے آج جس مسئلے پر بات کی اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔’

اس پر پوتن انھیں ٹوکتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اس کا کیا مطلب ہے؟ سب سے بُرا کیا ہو گا؟ کیا آپ کا مطلب ہے ہمیں مذاکرات کرنے چاہییں؟’

سرگئی اس کا نفی میں جواب دیتے ہیں۔

مگر پوتن ایک مرتبہ پھر انھیں ٹوکتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘کیا ہمیں مذاکرات کرنے چاہییں یا اُن کی خود مختاری کو تسلیم کرنا چاہیے؟ صاف صاف کہیں جو آپ کہنا چاہتے ہیں۔’

کئی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ انٹیلیجنس سربراہ پوتن کو مذاکرات کا مشورہ دینا چاہ رہے تھے مگر اُن کا سخت رویہ دیکھ کر وہ ہکے بکے رہ گئے۔

سرگئی نے مزید کہا کہ وہ ڈونیسک اور لوہانسک کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی حمایت کریں گے مگر پوتن کا لہجہ تب بھی سخت ہی رہا۔ اُنھوں نے کہا: ‘کریں گے یا کرتے ہیں؟ صاف صاف کہیں۔’

جب پوتن نے یہ سوال پوچھا تو سرگئی کی زبان لڑکھڑا گئی۔ اُنھوں نے جواب دیا کہ ‘میں ڈونیسک اور لوہانسک کی روسی وفاق میں شمولیت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔’

اس پر پوتن نے کہا کہ ‘میں یہ بات نہیں کر رہا۔ ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے۔ ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ اُن کی آزادی کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں۔’

اس پر سرگئی ہچکچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘جی، میں اُن کی آزادی تسلیم کرنے کی تجویز کی حمایت کرتا ہوں۔’

یوکرین، روس، پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس اجلاس میں پوتن کو ڈونیسک اور لوہانسک کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے پوتن نے روسی فوجیوں کو ڈونیسک اور لوہانسک کی ‘آزاد جمہوریاؤں’ میں بطور ‘امن مشن’ داخل ہونے کا حکم دے دیا۔

مغربی ممالک نے روس کے اس اقدام کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے چند ممالک نے روسی کمپنیوں اور بینکوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

اس وقت روس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی یوکرین کی سرحد پر موجود ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونیسک او رلوہانسک کو تسلیم کرنے کے بعد یوکرین پر حملے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔

مغربی ممالک نے کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر مکمل حملہ کیا تو اس پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ مگر فی الوقت یوکرین پر روسی مؤقف نرم پڑتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.