جنیوا: 32 سالہ پاکستانی نوجوان سائنسداں ڈاکٹر محمد صمید اور ان کے ساتھیوں کے اہم کام کے اعتراف میں بین االاقوامی ہفت روزہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ نے ان کے غیرمعمولی تجربے کو اپنے تازہ سرورق پر شائع کیا ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد صمید اس وقت یورپی مرکز برائے نیوکلیائی طبیعیات (سینٹر فار یوروپیئن نیوکلیئر فزکس یا ’سرن‘) سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سرن میں واقع ’اینٹی ہائیڈروجن لیزر فزکس ایپریٹس‘ یا ایلفا میں اینٹی ہائیڈروجن ذرات کو لیزر کی مدد سے سرد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل لیزر کو ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) سرد کرنے کےلیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اگرچہ 40 برس قبل لیزر کی مدد سے عام مادے پر مشتمل ایٹموں کو سرد کرنے کا تصور پیش کیا گیا لیکن اسے ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) یا ضدِ ذرات (اینٹی پارٹیکلز) کو سرد کرنے کےلیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اب ڈاکٹر صمید اور ان کی ٹیم نے یہ کام کیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد صمید نے کہا کہ اسکولوں کی سطح تک ہمیں ایٹم کےبارے میں یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ مزید ذیلی ذرات یعنی الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ’لیکن گہرائی میں دیکھیں تو الیکٹرون بنیادی ذرات کے خاندان لیپٹون سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ پروٹون اور نیوٹرون اس زمرے میں شامل نہیں اور یہ ذرات کوارکس اور گلووآنز سے تشکیل پاتے ہیں۔ پھر کوارکس کی بھی چھ ذیلی اقسام ہیں۔‘‘
1928 میں ممتاز ماہرِ طبیعیات پال ڈیراک نے نظری طور پر ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) کی پیش گوئی کی تھی اور اینٹی الیکٹرون کا تصور پیش کیا، جس کا تجرباتی ثبوت صرف چار سال بعد ہی ہمارے سامنے آگیا۔ پھر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ضدِ ذرات آخر کس طرح سفر کرتے ہیں۔ ایک ذرے اور ضد ذرے کی کمیت تو یکساں ہوتی ہے لیکن دونوں پر ایک دوسرے کے مخالف چارج مختلف ہوتا ہے۔ اب اگر الیکٹرون کو مقناطیسی میدان میں رکھا جائے تو وہ جس سمت میں مڑے گا جبکہ پوزیٹرون (اینٹی الیکٹرون) مقناطیسی میدان کی موجودگی میں اس سے مخالف سمت میں مڑے گا۔
پھر نظری شہادتیں اور مساواتیں بتاتی ہیں کہ بگ بینگ کے بعد کائنات کے ظہور کے ساتھ ہی اینٹی میٹر کی یکساں مقداریں پیدا ہوئی ہوں گی لیکن یہ اینٹی میٹر اب کہاں ہے؟ اور کائنات میں عام مادہ (میٹر) اتنی بڑی مقدار میں کیوں موجود ہے؟ یہ سوالات وہ ہیں جن پر غور کیا جارہا ہے۔
ایک مفروضہ تو یہ ہے کہ ضدِ مادہ میں ایک ایسی نامعلوم خاصیت ہے جو اسے عام مادے میں ڈھالتی ہے۔ اب اسی بات پر غور کےلیے گزشتہ 30 سے 40 برس کے دوران تجربہ گاہوں میں اینٹی میٹر کی معمولی مقدار بنا کر اس پر مختلف تجربات کئے جارہے ہٰیں۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر صمید کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اینٹی ہائیڈروجن کا انتخاب
اس کےلیے ڈاکٹر صمید نے سرن کی ایلفا تجربہ گاہ میں عام ہائیڈروجن ایٹم کا مخالف ذرہ منتخب کیا جو کہ سادہ ترین اینٹی ایٹم بھی ہے۔ یہ بات کہنا آسان ہے کہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایںٹی پروٹون کے گرد گھومتے ہوئے اینٹی الیکٹرون پر مبنی اینٹی ہائیڈروجن ایٹم بنا بھی لیا جائے تو اسے عام مادے سے دور رکھنا دردِ سر ہوتا ہے۔ یعنی جوں ہی ضدِ مادہ عام مادے سے ملے گا وہ فنا ہوجائے گا۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر خلائی سفر میں آپ کی ملاقات (بالفرض) ایسے شخص سے ہوتی ہے جو ضدِ مادہ سے بنا ہے اور جوں ہی آپ اس سے ہاتھ ملائیں گے، دونوں ہاتھ چھوتے ہی آپ اور وہ شخص ’’فنا‘‘ ہوجائیں گے اور گیما شعاعوں میں تبدیل ہوکر بکھر جائیں گے!
یہی وجہ ہے کہ حساس برقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) میدان میں چند اینٹی ہائیڈروجن ایٹموں کو رکھا گیا۔ پہلے 2017 میں انہوں نے اینٹی ہائیڈروجن (ایٹم) کو لیزر کے مدد سے سرد کیا تھا۔ یعنی اس کی تھرتھراہٹ کو کم سے کم کیا تھا۔ اب دوبارہ یہ تجربہ کیا گیا ہے جس میں لیزر کی بدولت اینٹی ہائیڈروجن کی حرکات کو کم کیا گیا ہے۔ طبیعیات کی زبان میں یہ عمل ٹھنڈا کرنا یا ’کولنگ‘ کہلاتا ہے۔
اسے ایک اور مثال سے سمجھیے کہ ابلتے ہوئے پانی میں ایٹم اور سالمات (مالیکیولز) بہت تیزی سے حرکت کرتے ہیں اور یہی عمل ان کی گرمی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ برف میں سالمات اور ایٹموں کی حرکت یا تھرتھراہٹ کم ہوجاتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ پانی ٹھوس اور سرد ہوچکا ہے۔
اب لیزر کے ذریعے اینٹی ہائیڈروجن سرد کرنے کے بعد اینٹی میٹر کے بارے میں ہمارے علم اور تجربے میں بیش بہا اضافہ ہوسکے گا۔ اپنی کامیابی کے متعلق ڈاکٹر محمد صمید نے بتایا کہ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے والدین نے انہیں بہترین تعلیم دلوائی اور اے لیول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کورنل یونیورسٹی کی اسکالرشپ پر طبیعیات میں مزید تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد انہوں ںے سرن میں موسمِ سرما کی انٹرن شپ حاصل کی اور یہاں اپنی صلاحیتوں کے بنا پر اس کی ایلفا لیب سے وابستہ ہوگئے۔
Comments are closed.