بولڈرسٹی، امریکہ:: نینوٹیکنالوجی کا نام اب اکثرلوگوں کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف کولاراڈو کے سائنسدانوں نے بہت ہی چھوٹے، پھرتیلے، خود سے تیرنے والے اور تیزرفتار نینوروبوٹس بنائے ہیں جنہیں صنعت، زراعت اور طب میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب تک تیرنے والے جتنے بھی نینوروبوٹس بنائے گئے ہیں ان کے مقابلے میں یہ 20 گنا زائد تیزرفتار ہیں اور کئی رکاوٹوں کو آسانی سے عبور کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ہی باریک جوف (کیوی ٹی) سے گزرسکتےہیں خواہ ان کی ساخت بھول بھلیوں جیسی ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح یہ آلودہ مٹی میں سرایت کرکے اس کی صفائی کرسکتےہیں، جسم کے اندر گوشت بھرے حصے میں پہنچ کر دوا ڈال سکتے ہین یا پھر نہایت مؤثر واٹر فلٹر بناسکتے ہیں۔
کولاراڈو یونیورسٹی کے سائنسداں ڈاکٹر ڈینیئل شوارٹز نے اسے بنایا ہے۔ گزشتہ 20 برس سے نظری طبیعیات داں ایسے ہی نینو تیراک روبوٹ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس وقت ٹٰیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اب یہ تیار کئے گئے ہیں اور انہیں جینس ذرات کا نام بھی دیا گیا ہے۔ پالیمر اور سلیکا سے تیار روبوٹ کا سرا دو حصوں پرمشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ کیمیائی عمل انجام دیتا ہے اور دوسرا غیرسرگرم رہتا ہے۔ اس سے ایک طرح کا کیمیائی فیلڈ بنتا ہے اور یوں روبوٹ کسی سانپ کی طرح تیرتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔
اگر بعض زردانوں (پولن گرینز) کو بھی پانی کی سطح پر ڈالا جائے تو وہ ادھر ادھر حرکت کرنے لگتے ہیں۔ عین اسی طرح یہ نینوروبوٹ ازخود آگے بڑھتے ہیں مگر ان کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ پھر ان پر مختلف تجربات کئے گئے جو ان کے مؤثر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
اپنے خواص کی بنا پر یہ انسانی جسم میں کینسر کے مقامات پر ازخود پہنچ کر دوا پہنچاسکتےہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بہت سی صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed.