پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے ساتھی ججز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان سپریم کورٹ کی دشمن نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ پارلیمان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر آج سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فل کورٹ میں شامل ہیں۔
سماعت کی کارروائی براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل سے پہلے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ Last but not the least ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل دے چکا ہوں، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دیے جانے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا، آرٹیکل 14، 20، 22 اور 28 میں درج بنیادی حقوق پر عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 1956ء کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی، آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں رد و بدل کی اجازت ہے، آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ کے رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیار استعمال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ختم ہو گیا، پارلیمان کا آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ کرنے کا مطلب اپنا اختیار سرینڈر کرنا نہیں، آرٹیکل191 میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لاء بنا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے، لاء کا لفظ آئین میں 200 بار استعمال ہوا تو کیا اس کا ایک ہی مطلب ہو گا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون یا تو پارلیمنٹ بناتی ہے یا پھر جج میڈ لاء ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ ایسی قانون سازی نہیں ہو سکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کو سلب کر رہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی کے نکات پر دلائل میں ان سوالات کے جواب دوں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل یہ لفاظ صرف لاء نہیں سبجیکٹ ٹو لاء ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل191 مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں، جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں، آرٹیکل 192 میں لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو انٹری 58 سے نکلتی ہے، صوبائی اسمبلی کیوں یہ قانون سازی نہیں کرسکتی؟ ان معاملات میں مشکلات ہیں، ون سائز فٹس آل نہیں چل سکتا یہاں پر۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ کیوں نہیں کہتے آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے، آئین سازوں نے آئین کو جاندار کتاب کےطور پر بنایا ہے جو وقت پڑنے پر استعمال ہوسکے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل191 میں قانون کا لفظ استعمال کیوں ہوا، اس پر بھی روشنی ڈالیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں قانون کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہی لیا جائے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ صوبائی اسمبلی کا بھی ہوسکتا ہے، کیا صوبے اپنی ہائی کورٹ کے لیے قانون سازی کر سکتے ہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سےکہیں واضح نہیں کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ عمومی حالات میں صوبے وفاق سے متعلقہ امور پر قانون سازی نہیں کر سکتے، معاملہ اگر صوبے کے عوام کے حقوق اور ہائی کورٹ کا ہو تو کیا ہو گا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہو گی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اس کے تحت رولز بنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں لفظ لاء میں 1956ء رولز شامل نہیں ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز 1980ء لاء ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980ء آرٹیکل191 میں لکھے الفاظ لاء میں نہیں آتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غیر معمولی بات کر رہے ہیں، آپ میری دلیل تو سمجھیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ گیا ہوں لیکن پھر بھی آپ کہہ دیں، ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں، رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس حساب سے تو سپریم کورٹ 1980ء میں کہے سکتی تھی کہ کوئی قانون نہیں ہے تو ہم رولز نہیں بنا سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے بحث کسی اور بنیاد پر شروع کی تھی، اگر آپ اپنے دلائل ہی جاری رکھتے تو یہ مشکل کھڑی نہ ہوتی، کچھ سوالات کے ہاں یا ناں میں جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ 1956ء کے رولز آئین کی کون سی شق کے مطابق بنے تھے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے آخری رولز 1980ء میں بنے تو مطلب پارلیمنٹ 43 سال سوتی رہی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ممکن ہے سپریم کورٹ میں زیر التواء کیس بڑھیں تو پارلیمنٹ کو کوئی اور قانون بنانا پڑے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ کا ریکارڈ لائے ہیں آپ؟ اس ایکٹ پر بحث ہوئی تھی یا نہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ریکارڈ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پارلیمان سے منفی چیزیں کیوں منسوب کی جاتی ہیں؟ یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ایک ادارے نے دوسرے کی بہتری کے لیے قانون سازی کی؟ میرے خیال میں پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، 40 سال سے عدالتی پریکٹس کا یہ تو فائدہ ہو کہ چیزوں کو سمجھ سکیں، اگر فل کورٹ مستقبل کے بارے میں ہر چیز فیصلے میں لکھ دے گی تو آئندہ کیسز متاثر ہوں گے، مستقبل کی بات چھوڑیں اور جو مدعا سامنے ہے اس کو دیکھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ دنیا میں سب سے پہلے کہاں استعمال ہوا؟ کہاں سے شروع ہوا؟ کیا انگلستان یا امریکا میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال ہوتا ہے؟ ہم نو آبادیاتی ماسٹرز کو کیوں مانتے ہیں؟ کیا اسلام میں ماسٹر آف روسٹر کا کوئی تصور موجود ہے؟ اگر کلونیئل سسٹم پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ ہے؟ اسلام کی رو سے تو ماسٹر تو صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں تو ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال کرتا رہوں گا آپ جذباتی نہ ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ لفظ اسکول ماسٹر سے آیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ بیٹھی ہوئی ہے وہ اس بارے میں تعین کر لے، آئین میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا جو آپ نے جواب نہیں دیا، ہم ایک اور آئینی اختیار کے استعمال پر مین میخ نکال رہے ہیں تو سپریم کورٹ کے اختیار استعمال کرنے پر کیا کہیں گے؟ اتنی باریکیوں میں مت جائیں، سپریم کورٹ نے تو کئی بار اپنے اختیار سے تجاوز کیا، تجاوز کی بات آپ نہیں کریں گے کیونکہ آپ کو روز یہاں پیش ہونا ہے، بہت ہو گیا ملک سے کھلواڑ، سپریم کورٹ نے آئین میں کون سے درج اختیارات پر عمل کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے کیسے فیصلہ کیا کہ ایک جج کو مخصوص کیسز سننے سے منع کیا گیا؟ 40 گھنٹوں میں کسی نے سپریم کورٹ کی غلطی پر بات نہیں کی، سپریم کورٹ کی غلطیوں سے متعلق درخواست تو دائر ہونے کا بھی اختیار نہیں ہے، ملک کو آگے بڑھنا ہے، پہلے انگریز چیف جسٹس تھے جن کا فیصلہ مولوی تمیزالدین کے حق میں تھا، انگلستان کا جج غیرجمہوری اقدام کو غلط اور ہمارا اس کو ٹھیک کہہ رہا ہے، سپریم کورٹ کہتی ہے ہم غلطی کریں تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، کوئی اور ذرا سا بھی غلط کچھ کردے تو سپریم کورٹ نے سرزنش کرنی ہے، آپ اٹارنی جنرل آف پاکستان ہیں، آپ نے قانون نہیں بنایا جو اس کا دفاع کریں گے، 3 یا 4 ججز پر بینچ بنا کر کون سا اختیار استعمال ہوا ہے یہ بتا دیں، میں تو عابد صاحب سے بھی کہتا ہوں اس بارے میں بات کیوں نہیں کرتے کہ بینچز بناتے وقت کون سا اختیار استعمال ہوا تھا، ایک بینچ نے فیصلہ کیا، دوسرے بینچ نے اسے ختم کر دیا، یہ نہ نظرِ ثانی کا اختیار تھا نہ ہی اپیل کا، معاملہ صرف دائرہ اختیار کا ہے تو اس کیس میں بھی نظرِ ثانی دائر کریں، کسی درخواست گزار نے نہیں کہا کہ عدالت کا خود اختیار سے تجاوز کرنا غلط ہے، اٹارنی جنرل پاکستان رکن پارلیمنٹ نہیں ہو سکتا، کب سے خاموشی سے سن رہا ہوں یہ سب کچھ کہنے پر تو مجبور نہ کریں، اپنا سوال چھوڑ رہا ہوں چاہیں تو جواب دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ رولز کے تحت اپنا اختیار بڑھاسکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اس کا اختیار رولز سے نہیں بڑھایا جاسکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کوئی مثال دے دیں کہ سپریم کورٹ سے متعلق یہ چیز بدل نہیں سکتی، کون سی آئینی کمانڈ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی سے روک رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ اور کتنا وقت لیں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر ہم ڈھائی بجے آکر آپ کو سن لیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کم کر سکتی ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا نیا دائرہ اختیار بنا سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان تمام سوالات کے جواب دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ان سوالوں پر سوچ لیجیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس تمام آئینی اختیارات ہیں اور اس کے لیے آئینی ضوابط مختلف ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کر دیا۔
واضح رہے کہ تمام درخواست گزاروں اور سیاسی جماعتوں کے دلائل بھی مکمل ہو گئے ہیں، پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے ایکٹ کی حمایت کی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایکٹ کی مخالفت جبکہ پاکستان بار نے حمایت کی۔
Comments are closed.