بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ٹے ٹارک: ملائیشیا کی جھاگدار میٹھی چائے جو لوگوں میں دوریاں مٹا رہی ہے

ٹے ٹارک: ملائشیا کی گاڑھی میٹھی چائے جو لوگوں میں دوریاں مٹاٹی ہے

  • میٹ سٹرن
  • بی بی سی ٹریول کے لیے

ٹے ٹارک

،تصویر کا ذریعہTENGKU BAHAR

،تصویر کا کیپشن

لوگ کہتے ہیں جب اس چائے کو بار بار ایک خاص بلندی سے گرایا جاتا ہے تو اس میں ہوا داخل ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف یہ مزید ذائقہ دار ہو جاتی ہے

جب ویٹر نے ایک جھاگدار مائع کو ٹین کے ایک پیالے سے دوسرے میں انڈھیلنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ عین میرے سر کے اوپر سے اس گرما گرم مائع کی ایک خمدار لہر گزری اور ویٹر جوں جوں اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پیالے کو اوپر لے جا رہا تھا، دونوں پیالوں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ مجھے لگا کہ ویٹر نے طبیعات کے بنیادی اصولوں کو ہی بدل ڈالا ہو، کیونکہ وہ جس زاویے سے اس مائع کی پتلی سے آبشار کو میز پر رکھے ہوئے شیشے کے گلاس میں گِرا رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔

میں نے نظر اٹھا کر اس کمرے میں پھیلے ہوئے دھوئیں میں ادھر ادھر دیکھا تو وہاں مجھے ہر قسم کے لوگ بیٹھے کھانا کھاتے دکھائی دیے۔ ایک نوجوان انڈین خاتون تھوڑی دیر پہلے ہی ریستوران کے سامنے واقع ایک مندر سے لوٹی تھی، دوسری میز پر کچھ لوگ، جو اپنی وضع قطع سے بینکر دکھائی دیتے تھے، میز پر رکھے ہوئے ایک کاغذ کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے برابر میں کچھ مسلمان سٹوڈنٹ بیٹھے ہوئے تھے جنھوں نے اپنے روایتی سینگکوک ہیٹ سر پر رکھی ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ وہاں وردی میں ملبوس کچھ خاکروب بھی بیٹھے ہوئے تھے جو لگتا تھا کہ صبح صبح کام پر نکلنے کے بعد کچھ دیر سستانے کے لیے یہاں آ گئے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کمرے میں ایک چھوٹا سا ملائیشیا جمع ہو چکا ہے اور اس بلبلے دار گرم مشروب کا سحر ہر کسی کو یہاں کھینچ لایا ہے۔

ملائشیا کا ’قومی‘ مشروب

،تصویر کا ذریعہMatt Stirn

،تصویر کا کیپشن

ٹے ٹارک کے معیار کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اسے کتنی دور تک ’کھینچا‘ گیا ہے

ملائشیا میں ایجاد ہونے والے اس گرم مشروب کو ‘ٹے ٹارک’ یا ‘کھینچی ہوئی چائے’ کہتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک میں لوگ یہ چائے بہت شوق سے پیتے ہیں اور اس کی جائے پیدائش یعنی ملائیشیا میں تو اسے غیر سرکاری طور پر قومی مشروب کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ کہنے کو یہ چائے بنانا کوئی زیادہ مشکل نہیں، بس کڑکدار چائے کی پتی میں گاڑھا دودھ (کنڈینسڈ مِلک) اور اچھی مقدار میں چینی ملا کر خوب پکنے دیں تو بظاہر ٹے ٹارک تیار ہے۔ اور اگر آپ ملائیشیا کے کسی بھی شہر میں دن کے کسی بھی پہر باہر نکلیں، آپ کو ہر سڑک پر جا بجا لوگوں کا جمگھٹا دکھائی دے گا جہاں ہر رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھے دنیا کے ہر موضوع پر گپ شپ لگاتے، اس مشروب کی چسکیاں لیتے نظر آئیں گے۔

مختلف سڑکوں پر لگے ہوئے چائے کے یہ سٹال عموماً ایک شحص کی بجائے خاندان چلاتے ہیں اور ہر خاندان چائے بنانے کی اپنی اپنی خاندانی ترکیب کسی دوسرے شخص کو نہیں بتاتا۔ ٹے ٹارک کے معیار کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ چائے کتنی دور تک ‘کھینچی‘ گئی ہے یعنی جب اسے سٹیل کے برتن سے پیالے میں گرایا جا رہا تھا تو ان دونوں میں فاصلہ کتنا تھا۔ لوگ کہتے ہیں جب اس چائے کو بار بار ایک خاص بلندی سے گرایا جاتا ہے تو اس میں ہوا داخل ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف یہ مزید ذائقہ دار ہو جاتی ہے بلکہ اس پر وہ مخصوص جھاگ آ جاتی ہے جو آپ کو کسی دوسری چائے میں نہیں ملے گی۔ ملائشیا کے مختلف علاقوں میں جو شخص بھی اس فن میں ملکہ حاصل کر لیتا ہے وہ مقامی لوگوں میں مشہور ہو جاتا ہے اور اس کے کئی مداح بن جاتے ہیں۔

اگرچہ ٹے ٹارک کی مٹھاس اور کسی آمیزش سے پاک ذائقہ ہی اس کی شہرت کے لیے کافی ہے، تاہم اس کی ثقافتی و تاریخی اہمیت بہت گہری ہے اور اس چائے کو ملائیشیا میں بسنے والے مختلف لوگوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت، برداشت اور تنوع کی ایک بڑی علامت سمجھا جاتا ہے۔

جزیرہ پنانگ سے تعلق رکھنے والی ادیبہ اور سماجی کارکن سلمیٰ نسوشن خُو کہتی ہیں کہ ‘ملائیشیا کے کثیر التہذیبی معاشرے سے مانوس ہونے کے لیے ہمارے پاس کئی برس کا عرصہ تھا۔ ہمارے آپس کے فرق کے باوجود، یہاں ہر کوئی اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہے کہ ہمیں واپس توازن کی طرف جانا ہے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے۔’

ملائشیا کا ’قومی‘ مشروب

،تصویر کا ذریعہMatt Stirn

،تصویر کا کیپشن

بطور ملک ملائشیا ایک ایسا چوراہا ہے جہاں ایشیا کی مختلف تہذیبوں کا ملاپ دکھائی دیتا ہے

جس طرح ملائیشیا اس خطے کی قدیم ملّے تہذیب اور چینی، برطانوی اور جنوب ایشیائی تہذیبوں کے ملاپ سے بنا ہے، بالکل اسی طرح ٹی ٹارک ایک ایسا مائع ہے جس میں ہمیں ملائیشیا کی تمام تہذیبوں اور روایات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ سیاہ چائے کی پتّی اس علاقے میں پہلی مرتبہ سنہ 1830 کے عشرے میں چینیوں نے متعارف کرائی تھی، چائے کو ‘کھینچنے’ کا ہنر سنہ 1850 کے بعد کے برسوں میں جنوبی ایشیا سے آنے والے لوگوں کی تخلیق ہے، اور چائے میں دودھ اور شکر کی روایت تقریباً سو برس بعد برطانوی نو آبادیاتی دور ( 1867 تا 1975) کے اختتامی برسوں میں پروان چڑھی۔ چونکہ ٹے ٹارک کی تخلیق میں بہت سے ملکوں کی تہذیبوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے، اسی لیے چاہے ان کا تہذیبی پس منظر کچھ بھی ہو، ملائیشیا کے زیادہ تر لوگوں کو اس مشروب سے لگاؤ ہے۔

کارٹونسٹ، ادیب اور ماضی میں ‘ٹی پُلر’ (چائے کھینچنے والے) کا کام کرنے والے محمد عظمی کہتے ہیں کہ ‘ٹی ٹارک ایک ایسی چیز ہے جو مختلف نسلوں، تہذیبوں اور مذاہب کے لوگوں کو آپس میں جوڑ سکتی ہے۔ (نسلی اور مذہبی فرق کے باوجود) ہم سب اکٹھے ایک جگہ بیٹھ سکتے ہیں اور ایک ہی مشروب پی سکتے ہیں اور چاہے تھوڑی دیر کے لیے سہی، آپس کے فرق کو بھول سکتے ہیں۔’

اس خاص چائے کے متعلق میں نے پہلی مرتبہ اس وقت سنا تھا جب میں کوالا لمپور سے آئے ہوئے دوست خِم فام کے ساتھ سنگاپور میں گھوم پھر رہا تھا۔ ہم ایک ملائیشیائی ریستوران میں کھانا کھا رہے تو میرے دوست نے مجھے ٹی ٹارک کا ایک کپ تھماتے ہوئے دعوی کیا کہ ‘اس ایک گلاس میں میرا تمام ملک سمایا ہوا ہے۔’ معلوم نہیں یہ علم بشریات کی تربیت تھی یا یہ کہ میرے جسم کو شکر کی شدید ضرورت تھی، لیکن جوں جوں خم فام مجھے اس چائے کی تاریخ بتا رہا تھا، میں اس مشروب کا گرویدہ ہوتا گیا اور مجھے محسوس ہوا کہ مجھے اس چائے کے بارے میں زیادہ جاننا چاہیے اور اسے بار بار چکھنا چاہیے۔

اور پھر چند ماہ بعد ہم دونوں خم فام کی کار میں دس دنوں کے لیے سڑک کے راستے ملائیشیا بھر کی سیر کو نکل گئے۔ ہمارا مقصد جنگل سے ڈھکی ہوئی شاہراہوں کے راستے ان مقامات تک پہنچنا تھا جہاں سے اس چائے کے تاریخی سفر کا آغاز ہوا اور پھر یہ پورے ملائیشیا میں مقبول ہو گئی۔ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ اس قوم کی تاریخ میں اس چائے کی اہمیت کیا ہے۔

ہمارے سفر کا آغاز ملکّا کے ساحلی شہر سے ہوا جو اپنے روشنیوں سے منور بازاروں اور ان شوخ رنگ عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہے جہاں سے آپ کو آبنائے ملکّا نظر آتی ہے۔ یہاں سے وہ مقام بہت قریب ہے جہاں سے سنہ 1511 میں پرتگالیوں نے اس خطے میں اپنی نو آبادی قائم کی۔ ان کے بعد سنہ 1641 میں ولندیزیوں نے یہاں قدم جمائے اور پھر سنہ 1824 میں آخر کار برطانیہ نے اس خطے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ مقامی ملّے باشندوں کو زیر تسلط کرنے کے علاوہ، ہر نووارد طاقت نے اپنی اپنی تہذیب کے اثرات مرتب کیے اور اس سے اس ملائیشیائی قوم کی تشکیل ہوئی جو آج ہمیں دکھائی دیتی ہے۔

ملائشیا کا ’قومی‘ مشروب

،تصویر کا ذریعہMatt Stirn

،تصویر کا کیپشن

ٹے ٹارک کے کچھ نمونے جو مصنف نے اپنے دورۂ ملائشیا کے دوران دیکھے اور ان سے لطف اندوز ہوئے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملائیشیا کی چائے اور خاص طور پر ٹی ٹارک کی ایجاد کی جڑیں ہمیں یہاں کی قدیم ربڑ کی صنعت میں ملتی ہیں۔ یہ سنگاپور بوٹینِکل گارڈن کے ڈائریکٹر ہینری نکولس رڈلی ہی تھے جو سنہ 1877 میں برازیل سے ربڑ کا پہلا درخت درآمد کر کے یہاں لائے جس کے بعد برٹش ملّایا کا علاقہ دنیا میں سب سے زیادہ ربڑ پیدا کرنے والا خطہ بن گیا۔ ربڑ کے دسیوں ہزاروں درختوں کی دیکھ بھال کے لیے مزدور چین اور جنوبی ہندوستان سے لائے گئے تھے۔ یہ جنوبی ایشیائی تارکینِ وطن، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چِنائی سے تھا، وہ اپنے ساتھ ‘کھینچی ہوئی چائے’ بنانے کا ہنر بھی لائے۔ اس زمانے میں یہ چائے بنانے کے لیے چین کی سیاہ چائے کی پتی استعمال کی جاتی تھی لیکن دودھ کے بغیر۔

جوں جوں ربڑ کے جنگلات میں کام کرنے والے مزدروں میں انڈیا کی مصالحے والی چائے مقبول ہوتی گئی تو فیکٹریوں میں بھی چائے کے ٹھیلے لگنے لگے۔ ایسے ڈھابے چلانے والوں کو مزدور مامک (تمل زبان میں ‘ماموں’) کہا کرتے تھے اور جب تھکے ہارے مزدور چائے کے سٹال پر آتے تو یہ میزبان ان کی تواضع گرما گرم چائے سے کرتے اور مزدور اپنے دوستوں سے گپ شپ لگا لیتے۔ یہی وہ سٹال تھے جہاں ٹے ٹارک پہلی مرتبہ ہلکی ہلکی ابلنا شروع ہوئی، لیکن ٹیے ٹارک کی دریافت میں اگلہ مرحہ اس کے دس برس بعد آیا جب یہ وسطی ملائیشیا کے پہاڑی جنگلات میں پہنچی اور اس میں پورا ابال آنے لگا۔

ملکّا کے بعد جب ہم شمال میں کیمارون ہائی لینڈز کے پہاڑوں کی جانب روانہ ہوئے تو ہم نے اپنے ارد گرد مناظر تبدیل ہوتے دیکھے۔ پام آئل کے ماخذ کجھور کے میدانی کھیتوں کی جگہ گھنے مرطوب جنگلات نے لے لی جہاں سبزے سے جھانکتے ہوئے بانس کے بنے ہوئے گھر دکھائی دے رہے تھے اور سڑک کنارے لگے ہوئے زنگ آلود نوٹس بورڈز پر لکھا تھا کہ اس علاقے سے گزرتے ہوئے شیروں سے ہوشیار رہیں۔ اور پھر جلد ہی ہمارے سامنے کا منظر بدل گیا اور مرطوب جنگلی جھاڑیوں کی جگہ نہایت نفاست سے بنائے گئے چائے کے باغات نے لے لی۔ جب ہم چھوٹے چھوٹے دیہاتوں سے گزر رہے تھے تو ہم نے ٹیوڈر دور کے ولایتی مکان اور دکانیں دیکھیں۔ اس پہاڑی علاقے میں برطانوی دور کے اثرات اتنے واضح تھے کہ آپ چاہیں بھی تو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیے

ربڑ کی فیکٹریوں میں جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے پھیری والے چائے کے تاجروں کی آمد کے پچاس برس بعد، برطانوی نژاد کاروباری شخصیت، آرچیبالڈ رسّل نے دریافت کیا کہ وسطی ملائیشیا کے پہاڑی علاقے کی آب و ہوا چائے کی کاشت کے لیے بہترین ہے۔ چنانچہ رسّل نے چین سے چائے کے پودے درآمد کیے اور سنہ 1920 کی دہائی کے آخری برسوں میں یہاں چائے کا پہلا باغ بنایا۔ کچھ ہی عرصے میں یہاں کی چائے بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت ہونے لگی اور جنگ عظیم دوئم کے دوران ہونے والی گوریلا جنگ اور خونریزی کے باوجود اس علاقے میں چائے کی پیداوار اور اس کی برآمد جاری رہی۔

اور پھر سنہ 1945 میں اس علاقے پر جاپان کا قبضہ ختم ہونے کے بعد جب یہاں کی معیشت دوبارہ بحال ہوئی تو دنیا میں عمدہ ملائیشیائی چائے کی مانگ اس قدر بڑھ چکی تھی کہ مقامی لوگوں کے اپنے علاقے کے باغات سے اچھی پتّی خریدنا محال ہو گیا۔ چنانچہ غریب مقامی لوگوں نے انتہائی کم درجے کی پتّی (سرابت) پر گزارا کرنا شروع کر دیا۔ اصل میں یہ چائے وہ برادہ تھا جو اس وقت زمین پر گر جاتا تھا جب فیکٹریوں میں اعلی معیار کی چائے کی پتیوں کو چھانا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ کم معیار کی چائے سستی مل جاتی تھی لیکن اس کا ذائقہ بہت تیکھا اور بد مزا کر دینے والا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مقامی لوگوں نے برطانوی روایت کو اپنانا شروع کیا اور اس کڑوی چائے میں دودھ اور شکر ڈالنا شروع کر دی۔ جنوبی ہندوستان سے آئے ہوئے تاجر اس کڑواہٹ کو مزید کم کرنے کے لیے اس میں گاڑھا دودھ (کنڈینسڈ مِلک) ڈالنے لگے۔ یہ اس ناگزیر صورت حال اور مقامی لوگوں کی مہارت کا امتزاج تھا جس نے دنیا کے اس خطے میں ٹے ٹارک کو جنم دیا۔ اب اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اس مخصوص چائے کو اگایا کہاں جائے۔

ملائشیا کا ’قومی‘ مشروب

،تصویر کا ذریعہMatt Stirn

،تصویر کا کیپشن

مائشیا میں چائے کی کاشت کے لیے وسطی پہاڑی علاقے کیمارون ہائی لینڈز کو بہترین علاقہ سمجھا جاتا ہے

ملائیشیا میں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مقام جہاں جنگ عظیم کے کچھ ہی عرصہ بعد راتوں رات ٹے ٹارک کی شہرت آسمان کو چھونے لگی وہ دراصل جزیرہ پنانگ پر سمندر کے کنارے واقع تاریخی شہر جارج ٹاؤن تھا، جو جزیرے کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا تجارتی مرکز بھی تھا۔

اس شہر کی گلیوں سے گزرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ پورے ملائیشیا کا دورہ کر رہے ہوں۔ شوخ رنگوں میں رنگے ہندو دیوتاؤں کے مجسموں کے ساتھ ہی آپ کو ایک اونچا مینار نظر آئے گا اور اس کے سامنے بدھ مت کا کوئی مندر۔ یہ شہر تنوع کا ایک جمگھٹا ہے اور اُس مشروب کی بہترین جائے پیدائش جس کا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ اس میں ملائیشیا کے ہر رنگ و نسل کی نمائندگی موجود ہے۔

میرے دوست خم فام کے بقول ’یہاں ٹے ٹارک کو لوگ بہت سنجیدہ چیز سمجھتے ہیں۔ اگر ملائیشیا اس چائے کا گھر ہے تو یہ شہر اس چائے کا دل ہے۔‘

اگر آپ کو ٹے ٹارک کے مختلف نمونوں کا ذائقہ چکھنا ہے تو شاید آج جارج ٹاؤن سے بہتر جگہ کوئی اور نہ ہو۔ آپ یہاں ملک کے مشہور ترین ’ماموں سٹالوں‘ پر رک کر اس کے مختلف ذائقوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ان مقامات میں ’روٹی کنائی ٹرانفسر روڈ‘ اور رہٹی کنائی جلان آرگائیل‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس شہر میں چائے ’کھینچنے‘ کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ ان مقابلوں کا آغاز پنانگ سے ہوا تھا اور اب ہزاروں شائقین یہ مقابلہ دیکھنے آتے ہیں۔ ہر سال یہ مقابلہ پنانگ کے جزیرے پر ہی کسی مختلف مقام پر منعقد کیا جاتا ہے۔

آگے بڑھتے ہوئے جب ہماری کار ’لِٹل انڈیا‘ کے نام سے مشہور علاقے سے گزری تو میں نے دیکھا کہ ہر گلی کی نکڑ پر کوئی جادوئی انداز میں چائے کھینچے کا کرتب دکھا رہا ہے۔

ملائشیا کا ’قومی‘ مشروب

،تصویر کا ذریعہMatt Stirn

،تصویر کا کیپشن

آج ٹے ٹارک کی طویل کہانی کا بہترین مظاہرہ آپ کو جارج ٹاؤن کے کیفے اور ٹھیلوں پر دکھائی دیتا ہے،

اگرچہ آج ٹے ٹارک کی طویل کہانی کا بہترین مظاہرہ آپ کو جارج ٹاؤن کے کیفے اور ٹھیلوں پر دکھائی دیتا ہے، لیکن جہاں تک اس چائے کے ملائیشیا کی ثقافت پر اثرات کا تعلق ہے، تو یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

حالیہ برسوں میں ٹے ٹارک کی مقبولیت میں ایک نئی لہر اس وقت آئی جب اسے ملائیشیا میں نسلی و ثقافتی تنازعات کے حل کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ مخلتف گروہوں کو آپس میں جوڑنے کی تاریخی صلاحیت کے پیش نظر، کئی تنظیموں نے ملائیشیا بھر میں ٹے ٹارک کی دعوتیں منعقد کرنا شروع کر دیں جن میں شرکاء کو یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ ان چیزوں پر بات کریں جو مختلف گروہوں میں مشترک ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ’ماموں کے سٹال‘ پر ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد شرکاء دیگر اہم موضوعات پر بھی بات کر سکتے ہیں۔ اس مہم میں سکول اور خیراتی ادارے حصہ لے رہے ہیں جن میں مختلف مذاہب کے طلبہ آپس میں مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ اس مہم کی افادیت کو دیکھتے ہوئے ملائیشیا کی مرکزی حکومت بھی سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے حالیہ عرصے میں ٹے ٹارک کی محفلیں منعقد کرتی رہی ہے۔

سماجی کارکن سلمیٰ نسوشن خُو کہتی ہیں کہ دنیا کے تمام ’شہروں اور ملکوں کا مستقبل ثقافتی تنوع میں ہے‘ اور ماہر بشریات شمسُل کے بقول یہ دور ’تنازعات پر بات کرنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے‘ کا دور ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بدلتی دنیا میں لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا سیکھیں اور شاید ٹے ٹارک ہمیں یہ سکھا سکتی ہے کہ مل جُل کر کیسے رہتے ہیں۔

میں جب سے ملائشیا سے لوٹا ہوں، اکثر خود کو اس اہم سبق کے بارے میں سوچتا پاتا ہوں جو ہمیں ٹے ٹارک سے ملتا ہے۔ میں جب بھی کوئی افسردہ کر دینے والی خبر دیکھتا ہوں یا مجھے لگتا ہے کہ دنیا ایک دوسرے سے جُڑنے کی بجائے تقسیم ہو رہی ہے، تو مجھے سکون اس وقت ملتا ہے جب میں اپنے خفیہ خزانے سے ملائیشیئن چائے کی چھوٹی تھیلی نکالتا ہوں اور یہ میٹھا مشروب بنانے لگتا ہوں۔ اگرچہ مجھے ابھی تک چائے ’کھینچنے‘ میں کوئی مہارت حاصل نہیں ہوئی، لیکن میں اپنے کپ میں کچھ حوصلہ افزا بلبلے بنا لیتا ہوں۔ چائے کا یہ کپ مجھے یاد دلا دیتا ہے کہ لوگوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے آپ کو صرف ایک چھوٹی سے چیز چاہیے جو آپ میں مشترک ہو اور اس میں صرف ایک چمچ گاڑھا دودھ۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.