’ٹرمپ نے گرفتاری کا جھوٹا دعوی کیا‘: کیا سابق امریکی صدر اپنے خلاف مقدمے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں؟

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کرنے والے نیو یارک کے ایک پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ سابق صدر نے اپنی ممکنہ گرفتاری کا افسانہ گھڑا تھا۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ کیس ان کے وکیل کی جانب سے پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو سنہ 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل خاموش رہنے کے لیے رقم کی ادائیگی پر مرکوز ہے۔

76 سال کے سابق صدر ٹرمپ کے خلاف یہ الزام ان متعدد معاملات میں سے ایک ہے جن پر ان سے تفتیش کی جا رہی ہے تاہم ابھی تک ٹرمپ ان تمام الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور تاحال ان پر اس حوالے سے فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی۔

تاہم نیو یارک پراسیکیوٹر کا تازہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ غیر واضح ہے کہ ٹرمپ کا مقدمہ سننے والی گرینڈ جیوری ان پر فرد جرم عائد کرنے کا ووٹ کب لے گی۔

ٹرمپ پر فرد جرم کا عائد ہونا ایک تاریخی پیشرفت ہو گی جس کا اثر ان کی صدارتی الیکشن مہم پر بھی پڑے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے بنا کسی ثبوت کے اعلان کیا تھا کہ ان کو منگل کے دن گرفتار کیا جا سکتا ہے اور انھوں نے اپنے حامیوں سے احتجاج کرنے کی اپیل کی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ کے اس دعوے کو مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ کے دفتر نے جھوٹا قرار دیا۔

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایلون بریگ کے دفتر کی جانب سے تین ریپبلکن قانون سازوں کو ایک خط لکھا گیا جنھوں نے ان سے ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کے معاملے پر کانگریس کے سامنے پیش ہونے کی درخواست کی تھی۔

یہ تینوں ریپبلکن قانون ساز امریکی ایوان نمائندگان میں کمیٹیوں کے چیئرمین ہیں اور انھوں نے ایلون بریگ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایک سیاسی مقدمہ بنا رہے ہیں۔

ایلون بریگ کے دفتر کی جنرل قونصل لیسلی ڈوبیک کی جانب سے ری پبلکن قانون سازوں کے خط کے جواب میں کہا گیا کہ یہ ایک مقامی تحقیق سے متعلق غیر معمولی انکوائری ہے۔

لیسلی ڈوبیک کا کہنا تھا کہ ریپبلکن قانون سازوں کا خط ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ جھوٹی توقع قائم کرنے کے بعد بھیجا گیا کہ ان کو اگلے دن گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کے بعد ٹرمپ کے وکلا نے ان ریپبلکن قانون سازوں سے مداخلت کے لیے کہا۔

لیسلی نے کہا کہ دونوں ہی حقائق کانگریشنل انکوائری کے لیے قانونی جواز نہیں رکھتے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی گرفتاری کے بیان کے بعد ڈیموکریٹ اراکین نے خبردار کیا تھا کہ ایک بار پھر ان کے حامی 2021 جیسی پرتشدد صورتحال پیدا کر سکتے ہیں جب امریکی دارالحکومت پر حملہ ہوا تھا تاہم اس بار اب تک زیادہ مظاہرے نہیں ہوئے۔

نیو یارک پولیس نے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر کے باہر رکاوٹیں لگا رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ مین ہیٹن کی جس عدالت میں ٹرمپ نے پیش ہونا ہے اور ٹرمپ ٹاور کے باہر بھی پولیس موجود ہے۔

واضح رہے کہ اگر گرینڈ جیوری، جو عام شہریوں پر مشتمل پینل ہوتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کسی موجودہ یا سابق امریکی صدر کے ساتھ ایسا پہلی بار ہو گا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہWIN MCNAMEE/GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

کیپیٹل ہل پر حملے کے بعد

انتھونی زرچر کا تجزیہ: ٹرمپ ممکنہ گرفتاری سے کیسے سیاسی فائدہ اٹھائیں گے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ پیشگوئی تو اب تک پوری نہیں ہوئی کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے گا لیکن فرد جرم کے انتظار کے ساتھ ساتھ سابق امریکی صدر خود کو جیل سے باہر رکھنے اور وائٹ ہاوس میں واپسی کی مہم کے لیے اس موقعے کو استعمال کرنے کی حکمت عملی طے کر رہے ہیں۔

یہ ایک مشکل کام ہو گا لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ٹرمپ یہ سب خاموشی سے نہیں سہیں گے۔ ماضی میں جب بھی ان کو کسی بحران کا سامنا ہوا تو ان کی اس وقت کی حکمت عملی سے ہمیں آنے والے دنوں کے بارے میں کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔

جب ٹرمپ کے مخالفین ان کو دیوار سے لگاتے ہیں تو وہ چپ نہیں رہتے، جوابی وار کرتے ہیں۔

2016 کی صدارتی مہم کے دوران انھوں نے ہر موقع پر تنازع کا انتخاب کیا جبکہ ان کی جگہ کوئی اور سیاستدان ہوتا تو کئی ایسے مواقع آئے جہاں وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے۔

جنگی ہیرو جان مککین پر تنقید کا تنازع ہو یا پھر جنسی ہراسانی کے الزامات، صدارت کے دوران مواخذے کا معاملہ ہو یا ان گنت چھوٹے تنازعے، ٹرمپ نے ہر موقعے پر جارحانہ انداز اپنایا۔

ایک کہاوت ہے کہ بہترین دفاع ایک اچھا حملہ ہوتا ہے اور ٹرمپ اسی پر یقین رکھتے ہیں۔

وہ پہلے ہی اپنے خلاف تحقیقات کرنے والے ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ کے خلاف سرگرم ہیں اور ان کی تحقیقات کو سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔

ایک حالیہ پریس ریلیز میں ٹرمپ نے ایلون بریگ کو ’ظالم‘ قرار دیا جس نے ’نظام انصاف کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نیو یارک ٹائمز کی میگی ہیبر مین کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر ممکنہ گرفتاری سے غصے میں بھی ہیں اور اس سے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق ٹرمپ اس کیس کو اپنے حامیوں کے خلاف حملہ قرار دیں گے اور اس کام کے لیے ان کے پاس دو مواقع ہیں۔

پہلا موقع ٹیکساس میں ان کی طے شدہ ریلی کے دوران ہو گا جبکہ دوسرا موقع اس وقت آئے گا جب اگر ان پر فرد جرم عائد ہوئی تو انھیں نیو یارک آنا ہو گا۔

میگی ہیبر مین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ خود کو ملک کی لبرل اشرافیہ کا خصوصی نشانہ بتائیں گے تاکہ وہ ملک میں سرخیوں میں جگہ بنا سکیں۔

ٹرمپ کی جانب سے صدارتی مہم کے لیے پیسہ جمع کرنے کی مہم کے دوران ایسا ہی بیانیہ بنتا نظر آ رہا ہے۔

اسی مہم کی ایک ای میل میں لکھا گیا کہ ’اگر اس سیاسی انتقام کو روکا نہیں گیا تو ایک دن اس کا نشانہ میں نہیں، آپ ہوں گے۔‘

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ کے ایک مشیر نے بتایا کہ گرفتاری کے اعلان کے بعد سے اس مہم میں بھی تیزی آ چکی ہے اور ہفتے کے دن کے بعد سے اب تک ڈیڑھ ملین ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب صدارتی مہم میں ان کے مخالفین شش وپنج کا شکار ہیں کہ ٹرمپ کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔

ماضی میں ٹرمپ نے اپنے اوپر ہونے والے حملوں کا ہمیشہ فائدہ ہی اٹھایا۔ ان کے مشیر برائن لانزا کا ماننا ہے کہ ’اگر ٹرمپ پر فرد جرم عائد ہوئی تو وہ بلٹ پروف ہو جائیں گے۔‘

لیکن طویل المدتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹرمپ کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ ممکنہ سزا اور قید کے علاوہ ان کے قانونی مسائل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

ان تمام مسائل کے باوجود اگر ٹرمپ ریپبلکن جماعت سے صدارتی امیدوار بننے کا مقابلہ جیت جاتے ہیں، تو ان کے خلاف کیس ڈیموکریٹس کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہو گا۔

سابق نیو جرسی گورنر کرس کرسٹی نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ ’فرد جرم عائد ہونا مددگار نہیں ہوتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی شخصیت نہیں جو ریپبلکن جماعت کے لیے اچھے امیدوار ثابت ہوں۔‘

اگرچہ ٹرمپ گذشتہ آٹھ برسوں میں ایسے متعدد سکینڈلز اور تحقیقات کا سامنا کر چکے ہیں جو کسی اور سیاست دان کا کیریئر ختم کر سکتے تھے تاہم قسمت ساتھ چھوڑ بھی سکتی ہے اور جب حالات بدلتے ہیں تو بہترین سیاسی سوچ بھی ناکام ہو سکتی ہے۔

آخر مضبوط جہاز بھی انجان پانیوں میں ڈوب سکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ