hookup agency in singapore my uber hookup carolina sweets hookup hotshot best site to hookup with older woman best hookup subredduts knoxville hookups

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ٹرانسنیسٹریا میں اسلحے اور بارود کا ذخیرہ جو ایک اور ’ہیروشیما‘ برپا کر سکتا ہے

ٹرانسنیسٹریا میں اسلحے اور بارود کا ذخیرہ جو ایک اور ’ہیروشیما‘ برپا کر سکتا ہے

سویت دور کی یاد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ سرد جنگ کی سب سے بڑی اور شاید سب سے غیر معروف باقیات میں سے ایک ہے، لیکن تین دہائیوں بعد بھی یہ خطرے کا باعث ہے اور خدشات کو جنم دیتا ہے۔

ٹرانسنیسٹریا میں، ایک علاقہ جو 1990 کی دہائی کے اوائل میں مالڈووا سے خود مختار ہوا حالانکہ اس نے بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل نہیں کی تھی، وہاں سرد جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ خانہ ہے: ایک گودام جس میں تقریباً 20,000 ٹن ہتھیار اور گولہ بارود موجود ہے۔

اگرچہ اس کے ناقدین کے مطابق اس جگہ پر ہونے والا دھماکہ ہیروشیما بم کے برابر دھماکہ کر سکتا ہے، لیکن دوسرے ماہرین نے نشاندہی کی کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور یہ کہ یہ پرانے اور ناکارہ ہتھیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یہ میگزین یا اسلحے کا ڈپو یوکرین کی سرحد سے صرف دو کلو دور کولبسنا کے چھوٹے سے قصبے میں واقع ہے اور اس کی حفاظت پر 1500 روسی فوجی تعینات ہیں۔

پچھلی دو دہائیوں کے دوران کی گئی مذاکراتی کوششیں یا ان ہتھیاروں اور گولہ بارود کی حتمی منتقلی کے معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں جیسا کہ مالڈووی حکام کی خواہش تھی۔

سب سے پہلے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ مشرقی یورپ کے اس دور دراز کونے میں اس طرح کا اسلحہ خانہ کیسے قائم ہوا؟

سویت فوج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوویت ورثہ

کولبسنا اسلحہ ڈپو 1940 کی دہائی میں بنایا گیا تھا، جب مالڈووا سوویت یونین کا حصہ تھا۔

اس وقت یہ ایک دفاعی ذخیرہ تھا جو سابق سویت یونین کے مغربی حصوں میں تعینات فوجیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ وہ جگہ بن گئی جہاں مشرقی جرمنی، چیکوسلواکیہ اور سابق کمیونسٹ بلاک کے دیگر ممالک سے انخلا کے وقت سوویت افواج اپنے ساتھ لائے گئے ہتھیاروں کو ذخیرہ کر لیا گیا۔

ٹرانسنسٹرین روسی بولنے والے آزادی کے جنگجو سنہ 1992 میں مالڈووا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

نوے کی دہائی کے وسط میں جب مالڈووا میں رومانیہ کی زبان بولنے والی قوم پرست اکثریت نے ‘یو ایس ایس آر سے علیحدگی کی خواہش کو ہوا دی، تو ٹرانسنسٹرین علاقے کی روسی بولنے والی آبادی نے اسی سال اگست میں پرڈنیسٹروین مالڈوین سوویت سوشلسٹ جمہوریہ قائم کرکے آزادی کا اعلان کیا اور تیراسپول میں اپنا دارالحکومت قائم کرلیا۔

سویت یونین کے ایک سال بعد مالڈووا نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔

چند مہینوں بعد ہی مالڈووین فورسز اور ٹرانسنسٹرین علیحدگی پسندوں کے درمیان ایک مختصر جنگ چھڑ گئی جو جنگ بندی اور ایک سکیورٹی زون کے قیام کے ساتھ ختم ہوئی۔ یہ ایک طرح کی سہ طرفہ سرحد تھی، جس کی حفاظت دونوں اطراف کے فوجیوں اور روس کی ایک نگران فورس کے ذریعے ہوئی۔

روسی فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ تنازعہ اس وقت سے حل طلب ہے اور کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی اب تک کی جانے والی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔

کولبسنا میں سوویت ہتھیاروں کے ڈپو کو ختم کرنے کی کوششیں بھی تقریباً دو دہائیاں قبل کی گئیں جو کچھ امید افزا پیش رفت کے باوجود ناکام رہی ہیں۔

یورپ کے دفاع اور تعاون کی تنظم او ایس سی ای کے سنہ 1999 میں استنبول میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ماسکو نے ٹرانسنسٹریا میں سے اسلحہ اور بارود کا کچھ حصہ واپس لے جانے اور کچھ حصہ ضائع کر دینے پر اتفاق کر لیا تھا۔

سنہ 2000 اور 2004 کے درمیان روس نے کولبسنا ڈپو سے ہتھیاروں اور گولہ بارود سے لدی ٹرین کئی ریل گاڑیاں لے لیں تھیں اور اس وقت یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس ڈپو میں 40 ہزار ٹن مواد موجود ہے۔

یہ عمل ٹرانسنسٹریا کے حکام کے فیصلے کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا اور او ایس سی ای کی طرف سے تعاون کی متعدد بار پیش کش کے باوجود اسے دوبارہ فعال نہیں کیا جا سکا۔

وقت کے ساتھ ساتھ روسی فوج کی موجودگی بڑھتی گئی۔

اگرچہ کولبسنا میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 20,000 ٹن سوویت دور کے ہتھیار اور گولہ بارود باقی ہے، لیکن اس مواد کی درست مقدار معلوم نہیں ہے۔

ٹرانسنسٹریا میں 1992 سے تعینات روسی افواج کولبسنا میں ہتھیاروں کی حفاظت کر رہی ہیں۔

’آکسفورڈ اینالیٹیکا کے روسی اور سابق سوویت خلائی مسائل کے سینئیر تجزیہ کار جان میکلوڈ کہتے ہیں ‘سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا۔ یہ ایک بڑا راز ہے۔ یہ شاید صرف گولہ بارود اور چھوٹے ہتھیار ہیں کیونکہ یہ سوویت دور کا مواد ہے، جو پرانے ہتھیاروں کا مجموعہ ہے، ممکنہ طور پر ایسے ماڈلز اور اقسام جن کی جدید روس افواج کو ضرورت نہیں ہے یا وہ اب استعمال نہیں کرتے اور یہ کوئی خاص ہتھیار نہیں ہیں۔’

میکلوڈ کے مطابق اس کے باوجود ماسکو نے اس ذخیرے کو مستقل طور پر ختم کرنے کی درخواستوں کو نظر انداز کیا ہے۔

ان کے مطابق ‘وہ اکثر کہتے ہیں کہ ہاں ہم ان چیزوں کے بارے میں بات کریں گے لیکن بس اتنا ہی ہے۔’

وہ اپیلیں وقت کے ساتھ ساتھ برقرار رہی ہیں

اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنی سالانہ تقریر میں مالڈووا کے صدر مایا سانڈو نے ٹرانسنسٹریا سے روسی فوجیوں کے انخلا اور ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ضائع کرنے کی اپنی درخواست کو دوہرایا۔

مایا سانڈو نے کہا کہ ‘یہ خطے اور اس سے باہر کی سلامتی اور ماحول کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہے۔’

ہتھیاروں کے خاتمے میں تعاون کرنے کے اقدام کے علاوہ ایسی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں تاکہ کم از کم وہاں پر موجود روسی فوج اس جگہ سے پیچھے ہٹ جائے اور ایک بین الاقوامی مشن اس مواد کی حفاظت کا ذمہ لے۔

مالڈووا کی صدر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مالڈووا کی صدر مایا سانڈو نے اقوام متحدہ سے ٹرانسنیسٹریا میں روسی اسلحہ ڈپو کے خاتمے کے لیے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔

مالڈووا کی صدر مایا سانڈو نے اقوام متحدہ سے ٹرانسنسٹریا میں روسی اسلحہ ڈپو کے خاتمے کے لیے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا جبکہ ماسکو نے غیر ملکی افواج کو علاقے میں مواد کی حفاظت یا امن کے کاموں کو سنبھالنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

روس کے نائب وزیر خارجہ آندرے روڈینکو نے گذشتہ ستمبر میں خبردار کیا تھا کہ ان کے ملک کے ٹرانسنسٹریا میں موجود فوجیوں کو تبدیل کرنے کے معاملے پر اس وقت بات نہیں کی جا رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ’اہم مشن‘ کی وجہ سے قبل از وقت ہوگا۔

روڈینکو نے تاس خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ‘خطے میں ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ذخیرہ جائز ہے کیونکہ یہ ٹھوس قانونی بنیادوں پر مبنی ہے۔ ہمارا موقف وہی ہے کہ جب تک تراسپول اور چیسیناؤ کے درمیان کوئی قابل قبول معاہدہ طے نہیں پا جاتا روسی امن فوج کا مسئلہ نہ اٹھایا جائے اور ہم سمجھتے ہیں وہ مرحلہ ابھی نہیں آیا۔’

حقیقی اور غیر متوقع خطرات

کولبسنا میں سوویت ہتھیاروں کی موجودگی کو مالڈووی حکام نے لوگوں اور ماحول کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بار بار اس کی مذمت کی ہے۔

مالڈووا کے سابق وزیر دفاع وٹالی مارینیوٹا نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے ساتھ سنہ 2015 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ دو ہائیوں سے کسی بھی بین الاقوامی مبصر کو ڈپو تک رسائی نہیں دی گئی ہے اور جو بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ صرف علیحدگی پسند حکومت یا روسی فیڈریشن کے دستوں کی طرف سے ہی دی گئی ہیں۔’

مارینوٹا نے مالڈوین اکیڈمی آف سائنسز کی ایک تحقیق کا بھی حوالہ دیا، جس کے مطابق اس ذخیرے میں اگر کوئی دھماکہ ہو گیا تو اس کی شدت ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم جیسی ہو گی۔

سوویت فوج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹرانسنسٹریا میں جمع کیے گئے ہتھیار زیادہ تر سوویت فوجیوں کے تھے جو مشرقی جرمنی اور کمیونسٹ بلاک کے دیگر ممالک سے واپس چلے گئے تھے۔

تاہم، میکلوڈ نے کولبسنا میں روسی ہتھیاروں میں دھماکے کے خطرات کو مسترد کر دیا۔

ایک ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘مجھے نہیں لگتا کہ دھماکے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ایسا مشکل ہے کیونکہ وہ ہتھیار روسی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کے پاس ان کو ذخیرہ کرنے کا نظام موجود ہے اور آگ کی صورت میں گو کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوگی لیکن یہ ہیروشیما جیسی ہی تباہی کا سبب بنے گی۔

اسلحے کے اس انبار سے وابستہ دیگر خطرات کا تعلق اس خطرے سے ہے جو کہ تنازعات کا شکار علاقوں میں ہتھیاروں کی سمگلنگ سے متعلق ہیں۔

وہ والد نوکر

کئی دہائیوں سے ٹرانسنسٹریا کو ایک ایسی جگہ کے طور پر شمار کیا جاتا رہا ہے جہاں مبینہ طور پر انسانی سمگلنگ سے لے کر اسلحے کی سمگلنگ تک مختلف قسم کی غیر قانونی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، اور یہاں تک یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ پہلے تنازعات میں استعمال ہونے والے ہتھیار اسی علاقے سے آئے تھے۔

’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر گودام سے ٹرانسنسٹریا سے ہتھیار چوری کیے گئے یا لیے گئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم۔ بنیادی طور پر یہ ایک طرح کا بے قابو اور بہت اچھی طرح سے زیرِ انتظام علاقہ نہیں ہے یہاں بہت ساری غیر قانونی سرگرمیاں اور سمگلنگ ہوتی ہے۔

‘مجھے نہیں لگتا کہ اس کی بنیادی وجہ ٹرانسنسٹریا میں اسلحے کی سمگلنگ بلکہ وہ ہتھیار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست نہیں ہے: یہ ایک عجیب و غریب طریقے سے حکومت کرنے والی جگہ ہے۔’

سیاست کے ہتھیار

لیکن اگر کولبسنا میں ذخیرہ کیے گئے ہتھیار اور گولہ بارود پرانے ہیں اور روسی فوج کے لیے اب ان کی زیادہ قیمت نہیں ہے تو ماسکو نے گودام کو بند کرنے اور ان کو ٹھکانے لگانے کا کام کیوں ختم نہیں کیا؟

میکلوڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس کے محرکات سیاسی ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے۔ اس ڈپو کو برقرار رکھنے سے، ماسکو کہہ سکتا ہے کہ ‘مجھے افسوس ہے، لیکن ہمیں ان ہتھیاروں کا خیال رکھنا ہے اور اس لیے ہمیں ٹرانسنسٹریا میں فوجی رکھنا ہوں گے۔’

روسی فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روس ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا جیسے دیگر علاقوں میں فوجی موجودگی برقرار رکھتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس موجودگی کے ساتھ، روس مالڈووا میں جو کچھ ہوتا ہے اس میں ایک خاص مداخلت کی ضمانت دیتا ہے، ایک پڑوسی ملک جو یورپی یونین میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔

میکلوڈ کے مطابق مختلف واقعات میں روس نے 1990 کی دہائی میں خانہ جنگیوں کے ذریعے اس قسم کے چھوٹے ملک بنانے میں مدد کی جیسا کہ جارجیا میں ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا اور مالڈووا میں ٹرانسنسٹریا۔ اور اب ہم اسے مشرقی یوکرین کے بعض علاقوں میں دیکھ رہے ہیں۔’

یہ ان ریاستوں کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ ہے جنھیں روس بہت دوستانہ نہیں سمجھتا تاکہ انھیں قابو میں رکھا جائے اور روسی فوجی مداخلت کے امکان کو زندہ رکھا جائے۔

ماہرین کاخیال ہے کہ فی الحال ٹرانسنسٹریا میں مسلح تصادم کا امکان نہیں ہے کیونکہ وہاں ایک قسم کی ’عجیب طور پر مستحکم‘ جمود ہے جس سے کوئی خوش نہیں ہے، لیکن جس کے ساتھ ہر کوئی رہ سکتا ہے۔

اس صورت حال کا یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اس بات کا امکان بہت زیادہ نہیں ہے کہ ہم ٹرانسنسٹریا میں تنازعہ دیکھیں لیکن وہاں روسی فوج کی موجودگی کو برقرار رکھنے سے ماسکو وہاں کسی وقت بھی کارروائی کر سکتا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.