ویمنز ورلڈ کپ 2023: آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیوں نہیں چاہتے کہ سعودی محکمہ سیاحت ایونٹ سپانسر کرے؟
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے فیفا سے ان رپورٹس کی ’فوری وضاحت‘ مانگی ہے جن کے مطابق سعودی عرب کے محکمہ سیاحت کو 2023 کے خواتین ورلڈ کپ کے باضابطہ سپانسر کے طور پر نامزد کیا جائے گا۔
وزٹ سعودی کے ساتھ ایک معاہدے کا اعلان ہونے والا ہے اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے اس پر پہلے ہی تنقید کی جا چکی ہے۔
سعودی عرب پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی فٹ بال باڈیز نے کہا ہے کہ اس کے بارے میں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا اور انھیں یہ جان کر ’مایوسی‘ ہوئی ہے۔
دونوں ممالک کی فٹ بال باڈیز نے فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی کو خط لکھا ہے، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے ’بہت برے انداز میں کھیل کا استحصال‘ قرار دیا ہے۔
خواتین کا ورلڈ کپ 20 جولائی سے 20 اگست تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے شہروں میں منعقد ہو رہا ہے اور منتظمین کا خیال ہے کہ اس ٹورنامنٹ کو ریکارڈ دو ارب لوگ دیکھیں گے۔
سپانسر شپ ڈیل جس کے بارے میں ابھی باضابطہ طور پر اعلان ہونا باقی ہے، شراکت داری کی بنیاد پر ترتیب دیے گئے نئے ڈھانچے کا حصہ ہے جسے فیفا نے برانڈز کو اجازت دینے کے لیے بنایا ہے تاکہ ان کے ذریعے خواتین کے کھیل کو سپورٹ کیا جا سکے۔
اگرچہ معاہدے کے بارے میں زیادہ تفصیلات عام نہیں کی گئیں، اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس سے خواتین کے کھیل کو نمایاں فروغ ملے گا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو دوبارہ فٹ بال میں لگایا جائے گا۔
فٹ بال آسٹریلیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’فٹ بال آسٹریلیا کو معلوم ہے کہ فیفا نے فیفا ویمنز ورلڈ کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ 2023 کے سلسلے میں شراکت داری کا معاہدہ کیا ہے۔‘
’ہمیں یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی ہے کہ کسی بھی فیصلے سے قبل اس معاملے پر فٹ بال آسٹریلیا سے مشاورت نہیں کی گئی۔ فٹ بال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ فٹبال نے مشترکہ طور پر فیفا کو خط لکھا ہے کہ وہ فوری طور پر صورتحال کی وضاحت کرے۔‘
نیوزی لینڈ فٹ بال نے مزید کہا ہے کہ ’اگر یہ رپورٹس درست ثابت ہوتی ہیں تو ہمیں اس سے بہت صدمہ پہنچا ہے اور مایوسی ہوئی ہے کیونکہ فیفا نے اس معاملے پر نیوزی لینڈ فٹبال سے کوئی مشورہ نہیں کیا ہے۔‘
سعودی محکمہ سیاحت کا سپانسر مضحکہ خیز: ’مملکت میں عورت مرد کی اجازت کے بغیر نوکری بھی نہیں کر سکتی‘
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں کھیلوں کے مقابلوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے تاہم مملکت پر الزام ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنی ساکھ پر ’کھیلوں کے ایونٹس‘ کے ذریعے پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور سزائے موت کے استعمال پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے خاتمے جیسی کچھ اصلاحات متعارف کروائی ہیں مگر اس کے باوجود خواتین کے حقوق کے متعلق مہم چلانے والوں کو قید میں ڈالا جاتا ہے۔
مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ ولی عہد نے 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا – جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریلیا کی نکیتا وائٹ کا کہنا ہے کہ ’سعودی محکمہ سیاحت کا دنیا میں خواتین کے کھیلوں کے سب سے بڑے ایونٹ کو سپانسر کرنا مضحکہ خیز ہے کیونکہ سعودی عرب میں تو ایک عورت ہونے کے ناطے آپ اپنے مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر نوکری بھی نہیں کر سکتیں ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب کے وزیر کھیل شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے بی بی سی سپورٹس کو بتایا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ ملک کو ہمیشہ عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شہزادہ عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہم پر ہمیشہ تنقید کی جائے گی لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ملک اور ہمارے لوگوں کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا چیز ہمارے نوجوانوں کو مستقبل کے لیے تیار کر رہی ہے۔‘
بدھ کے روز سعودی عرب کو 2027 میں مردوں کے ایشین کپ کے انعقاد کی میزبانی سے نوازا گیا۔
سعودی عرب 2026 میں پہلی بار ویمنز ایشین کپ کی میزبانی کے لیے بولی بھی لگا رہا ہے۔
اگرچہ سعودی عرب نے 2012 میں پہلی بار خواتین کو اولمپکس کے لیے بھیجا تھا، لیکن مملکت نے حالیہ برسوں میں خواتین فٹ بال کھلاڑیوں کو ترقی دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں، خواتین شائقین کو 2018 میں پہلی بار فٹ بال میچوں میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔
سعودی عربین فٹ بال فیڈریشن (ایس اے ایف ایف) نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں دو خواتین کو تعینات کیا ہے اور 2019 میں خواتین کا فٹ بال کا باقاعدہ شعبہ بنایا گیا ہے۔
2020 میں خواتین کی فٹ بال لیگ کا آغاز ہوا اور گذشتہ ماہ سعودی عرب نے پہلی بار فیفا خواتین کی عالمی درجہ بندی میں شامل ہونے کے لیے چار ملکی خواتین کے فٹ بال ٹورنامنٹ کی میزبانی کی اور اسے جیتنے میں کامیاب بھی رہا۔
Comments are closed.