وہ عالمی کرنسی جس نے امریکی ڈالر سے قبل تین سو سال تک دنیا پر راج کیا
- مصنف, جورگے پیریز ویلری
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
جدید تاریخ میں عالمی سطح کی پہلی مالیاتی اکائی
یہ کرنسی اتنی بیش قیمت تھی کہ عالمی دنیا پر اس کا راج تین سو برس تک جاری رہا۔ برطانوی پاونڈ اور امریکی ڈالر کے عروج سے قبل یہی دنیا کی عالمی کرنسی مانی جاتی تھی۔
درحقیقت امریکہ نے ڈالر کو بطور کرنسی ترقی دینے کے لیے اسی کے ماڈل پر انحصار کیا۔
اس کا نام ’ریال ڈی اوچو‘ تھا اور یہ جدید تاریخ میں بین الاقوامی طور پر استعمال ہونے والی پہلی کرنسی تھی۔
دراصل یہ چاندی کا سکہ تھا جسے ہسپانوی سلطنت نے 16ویں صدی کے وسط میں جاری کیا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب لاطینی امریکہ کے نوآبادیاتی نظام سے حاصل ہونے والی دولت سے مالامال سپین دنیا کی ایک عظیم قوت بن چکا تھا۔
اس کرنسی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہسپانوی طاقت کا زوال شروع ہوا تب بھی یہ کرنسی عالمی دنیا پر حاوی رہی حتیٰ کہ انیسویں صدی کے اختتام تک اس کا سورج غروب ہو گیا۔
ایک عالمی کرنسی کی پیدائش
اس سکے کا آغاز ایک مالیاتی تبدیلی سے ہوا تھا جس کا آغاز سپین کے کیتھولک بادشاہوں نے 1497 میں اس وقت کیا جب لاطینی امریکہ میں نوآبادیاتی نظام کا آغاز ہوا۔
اس تبدیلی، جسے مالیاتی اصلاحات کا حصہ بنایا گیا تھا، کے تحت اس چاندی کے سکے کو ادائیگی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
تاہم اس کی مقبولیت کا آغاز 16ویں صدی کے وسط میں ہوا جس کے پیچھے سپین کے بادشاہ کارلوس اول اور فلپ دوم کا بھی ہاتھ تھا۔
ان دونوں بادشاہوں کا دور حکومت سپین کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے جب یورپی طاقت دنیا بھر میں پھیل رہی تھی۔
ان اہم کانوں میں سے ایک کی تصویر جہاں سے ہسپانوی سلطنت چاندی نکالتی تھی
ہوزے ماریا ڈی فرانسسکو اولموس میڈرڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ 1535 میں لاطینی امریکہ میں پہلی بار سکے بنائے گئے کیونکہ چاندی کو لے جانے کے لیے یہ ایک بہترین اور آسان طریقہ تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ سونے کے سکے، جسے اونزا کہا جاتا تھا، کے ساتھ اس طرح چاندی کا یہ سکہ یورپ میں داخل ہوا اور سب اس بات پر متفق تھے کہ یہ بہت معیاری چاندی تھی۔
’دنیا اور سمندروں کا سکہ‘
18ویں صدی تک ریاک ڈی اوچا عالمی کرنسی بن چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپی طاقتیں ہسپانوی تخت کی لڑاائی میں ایک دوسرے سے نبردآزما تھیں۔
اس وقت سپین نے لاطینی امریکہ پر زیادہ توجہ دی اور میکسیکو کی ’رائل منٹ‘ (یعنی شاہی سکے بنانے کی جگہ) کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اس کے بعد ریال کو جدید طرز پر بنایا جانے لگا اور یہ ’دنیا اور سمندروں کی کرنسی‘ کہلائی جانے لگی۔
ہسپانوی چاندی کو دوسری یورپی طاقتوں نے پسند کیا۔ اس تصویر میں 1628 میں ہوانا میں ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے 24 بحری جہازوں کے سکواڈرن کے ذریعے چاندی سے لدے ایک ہسپانوی بیڑے کو پکڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے
اس کرنسی کو ’کولمناریا‘ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اس پر ہرکولیس کے کالم چھاپے جاتے تھے جن کے درمیان زمین کے دو کونے ہسپانوی سلطنت کی وسعت کی علامت تھے۔
چند ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا سب سے خوبصورت سکہ تھا۔
تاریخ دان ہوزے ماریا بتاتے ہیں کہ 15ویں اور 16ویں صدی میں بحر اوقیانوس تجارتی راستہ اہم تھا لیکن پھر بحر الکاہل کے ذرہعے تجارت زیادہ اہم ہونے لگی جس کی بنیاد ہسپانوی چاندی کا سکہ تھا اور مالیاتی نظام تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکہ سے ہر طرف تجارتی راستہ کھلا تھا۔ یہیں سے یہ سکہ ایشیا تک پہنچا جہاں چین، جاپان اور انڈیا سمیت کئی ممالک نے بھی اسے تسلیم کیا۔
چند ممالک میں اس سکے پر مقامی مہر لگا دی جاتی تھی تاکہ اسے مقامی طور پر استعمال کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
’پلر ڈالر‘
ہسپانوی سکہ 18ویں اور 19ویں صدی کے دوران پروان چڑھتی ہوئی برطانوی نو آبادیوں میں بھی تسلیم کیا جاتا تھا جہاں اس کا نام ’پلر ڈالر‘ کے طور پر مشہور ہوا جس کی وجہ اس کے ڈیزائن پر موجود ہرکولیس کے پلر تھے تاہم آسٹریلیا میں اسے ’ہولی ڈالر‘ کہا جاتا تھا۔
ایک بار برطانوی کرنسی کی قلت کی وجہ سے آسٹریلیا کے حکام نے 40 ہزار ہسپانوی سکے درآمد کیے اور ان میں سوراخ کر دیے تاکہ سکوں کی تعداد دوگنی ہو جائے۔
اس سکے کو ہسپانوی ڈالر بھی کہا جاتا تھا جو شمالی امریکہ کی کالونیوں میہں بھی مشہور تھا کیوں کہ برطانوی سکوں کے مقابلے میں یہ باآسانی دستیاب ہو جاتے تھے۔
ریال ڈی اے اوچو 5 براعظموں میں گردش کرنے والا پہلا سکہ تھا
امریکی ڈالر
ہسپانوی سلطنت کے زوال کے وقت بھی ریال کا سکہ دنیا میں چلتا رہا تاہم 1770 میں جب امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کر لی تو اپنی کرنسی بنانے کے لیے انھوں نے ہسپانوی سکے سے ہی خیال حاصل کیا۔
امریکی انقلابی اپنی تحریک کے لیے کاغذی کرنسی تیار کرتے تھے جس کی گارنٹی ہسپانوی ریال ہی ہوا کرتا تھا۔
امریکی ڈالر 1785 میں معرض وجود میں آیا لیکن ہسپانوی ڈالر 1857 تک چلتا رہا جب ’کوائنیج ایکٹ‘ کے تحت ہسپانوی سکے کو شمالی امریکہ سے ختم کر دیا گیا۔
تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ ڈالر کا علامتی نشان بھی ہسپانوی سکے سے مستعار لیا گیا۔
ریال ڈی اوچو کا زوال
لاطینی امریکہ میں ہسپانوی کالونیوں کی آزادی اور یورپ میں نپولین کی جنگوں نے ہسپانوی سکے کے زوال کی ابتدا کی۔
لاطینی امریکہ کی سکوں کی کانیں ہاتھ سے چھن جانے کے بعد سپین زول پذیر ہونے لگا تاہم ریال پھر بھی 19ویں صدی کے اختتام تک ایک عالمی کرنسی کے طور پر زندہ رہا۔
ماریا روئیز ٹراپیرو نے کرنسی پر اپنی کتاب میں لکھا کہ چین، انڈیا اور مشرق وسطی میں ہسپانوی سکہ بہت اہم مانا جاتا تھا اور یہ صرف امریکی ڈالر کا رول ماڈل ہی نہیں تھا بلکہ کینیڈا کا ڈالر، چین اور کوریا کے علاوہ لاطینی امریکہ کی ریاستوں کی کرنسیوں کی بنیاد بھی یہی سکہ تھا۔
Comments are closed.